کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 117
د: امام علی الطنافشی بیان کرتے ہیں:’’ وَعُقُوْبَتُہُ سِجْنُہُ۔‘‘ [1] ’’ اور اس کی سزا اس کو قید میں ڈالنا ہے۔ ‘‘ ہ: حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر تحریر کرتے ہیں: ’’ وَاسْتُدِلَّ بِہٖ عَلیٰ مَشْرُوْعِیَّۃِ حَبْسِ الْمَدِیْنِ إِذَا کَانَ قَادِرًا عَلَی الْوَفَائِ تَأْدِیْبًا لَہُ وَتَشْدِیْدًا عَلَیْہِ۔ ‘‘[2] ’’ اس[حدیث]سے ادائیگی کی قدرت رکھنے والے مقروض کو تادیب اور اس پر سختی کرنے کی غرض سے قید کرنے کی مشروعیت پر استدلال کیا گیا ہے۔ ‘‘ و: شیخ شعیب ارناؤوط شرح حدیث میں لکھتے ہیں:’’ أَرَادَ بِعقوبَتِہِ حَبْسُہُ۔‘‘ [3] ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی سزا سے مقصود اس کو قید میں ڈالنا ہے۔ ‘‘ ۲: قاضی شریح قرض کے واپس نہ کرنے پر مقروض کو قید میں بند کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن سیرین سے روایت نقل کی ہے: ’’ عَنْ شُرَیْحٍ أَنَّہُ کَانَ یَحْبِسُ فِيْ الدَّیْنِ۔ ‘‘[4] ’’ شریح قرض[کی عدم ادائیگی]کی بنا پر قید کرنے کا حکم دیتے تھے۔ ‘‘ ۳: امام شعبی بھی عدم ادائیگی کی صورت میں قید کرنے کو ضروری قرار دیتے تھے۔
[1] ھامش الإحسان ۱۱؍ ۴۸۷۔ [2] فتح الباري ۵؍۶۲۔ [3] ھامش الإحسان ۱۱؍ ۴۸۷۔ [4] المصنف، کتاب البیوع والأقضیۃ، في الحبس في الدین، رقم الروایۃ ۹۶۵، ۶؍ ۲۴۸ ؛ نیز ملاحظہ ہو: المرجع السابق، رقم الروایۃ ۹۶۴، ۶؍ ۲۴۸ ؛ ومصنف عبدالرزاق، کتاب البیوع، باب الحبس في الدین، رقم الروایۃ ۱۵۳۰۹ و ۱۵۳۱۰، ۸؍ ۳۰۵۔ ۳۰۶۔