کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 109
’’ قرض کی ادائیگی تک مؤمن کی جان معلّق رہتی ہے۔ ‘‘ نفس مؤمن کے معلق رہنے سے مراد یہ ہے، کہ ادائیگی قرض تک اس کا جنت میں داخلہ روک دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ جامِ شہادت بھی نوش کرلے، تب بھی قرض کا واپس نہ کرنا، اس کو جنت میں روکنے کا سبب بن جاتا ہے۔ آئندہ ذکر کی جانے والی حدیث اس بات پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے۔ ج:حضرات ائمہ نسائی، حاکم اور بغوی نے حضرت محمد بن جحش رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا کہ:’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اُٹھایا، پھر اپنی ہتھیلی کو اپنی پیشانی پر رکھ دیا، پھر ارشاد فرمایا: ’’ سُبْحَانَ اللّٰہِ!مَا ذَا نَزَلَ مِنَ التَّشْدِیْدِ!‘‘ ’’ اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہیں!کس قدر سختی نازل ہوئی ہے!‘‘ ہم چپ رہے اور خوف زدہ ہوگئے۔ دوسرے روز میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ’’ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ!مَا ھٰذَا التَّشْدِیْدُ الَّذِيْ نَزَلَ؟ ‘‘ ’’ یا رسول اللہ!نازل ہونے والی یہ سختی کیا تھی؟ ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ!لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، ثُمَّ أُحْیٰی، ثُمَّ قُتِلَ، ثُمَّ أَحْیٰی، ثُمَّ قُتِلَ، وَعَلَیْہِ دَیْنٌ، مَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ، حَتَّی یُقْضَی عَنْہُ دَیْنُہُ۔ ‘‘[1]
[1] سنن النسائی، کتاب البیوع، التغلیظ فی الدین، ۷؍۳۱۴۔۳۱۵؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع، ۲؍۵؛ و شرح السنۃ، کتاب البیوع، باب التشدید فی الدین، رقم الحدیث ۲۱۴۵، ۸؍۲۰۱۔ امام حاکم نے اس کو [صحیح] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔(ملاحظہ ہو: المستدرک ۲؍۲۵ ؛ والتلخیص ۲؍۲۵)۔ شیخ البانی نے اس کو [حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو : صحیح سنن النسائی ۳؍۹۶۹)۔