کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 104
أَوْ فِيْ نَفْسِہِ، وَھُوَ عَلَمٌ مِنْ أَعْلَامِ النُبُوَّۃِ لِمَا نَرَاہُ بِالْمُشَاھَدَۃِ۔ وَقِیْلَ اَلْمُرَادُ بِالإِْتْلاَفِ عَذَابُ الْآخِرَۃِ۔ [1] ’’ اس کا ظاہری معنی یہ ہے، کہ اس کے لیے یہ بربادی دنیا ہی میں اس کی معیشت یا جان میں ہوتی ہے اور یہ بات، جیسا کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے، کہ بربادی سے مراد عذابِ آخرت ہے۔ ‘‘ ج:عدم ادائیگی کے آخرت میں سنگین اثرات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کے واپس نہ کرنے کے آخرت میں سنگین نتائج بیان کرکے اُمت کو قرض کی ادائیگی کی پرزور ترغیب دی ہے۔ توفیق الٰہی سے ذیل میں اس بارے میں درج ذیل چار عنوانوں کے ضمن میں کچھ احادیث پیش کی جارہی ہیں: ۱۔ روزِ قیامت بطورِ چور پیشی: امام طبرانی نے میمون کردی کے حوالے سے ان کے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ وَأَیُّمَا رَجُلٍ اسْتَدَانَ دَیْنًا، لَا یُرِیْدُ أَنْ یُؤَدِّيَ إِلیٰ صَاحِبِہِ حَقَّہُ، خَدَعَہُ حَتَّی أَخَذَ مَالَہُ، فَمَاتَ، وَلَمْ یُؤَدِّ إِلَیْہِ دَیْنَہُ، لَقِی اللّٰہ وَھُوَ سَارِقٌ۔ ‘‘[2]
[1] فتح الباري ۵؍ ۵۴ باختصار۔ [2] منقول از الترغیب والترہیب، کتاب البیوع، الترہیب من الدین، …، جزء من رقم الحدیث ۱۷، ۲؍ ۴۰۲۔(نیز ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد ۴؍ ۱۳۲)۔ حافظ منذری اور حافظ ہیثمی نے اس کے متعلق لکھا ہے، کہ اس کو طبرانی نے [المعجم] الصغیر اور الأوسط میں روایت کیا ہے اور اس کے [روایت کرنے والے ثقہ] ہیں۔(ملاحظہ ہو: الترغیب والترہیب ۲؍ ۴۰۲ ؛ ومجمع الزوائد ۴؍ ۱۳۲)۔ شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب ۲؍ ۳۵۲)۔