کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 77
2 میت سے خوشبو :
ہمارے دادا مرحوم نور الٰہی رحمہ اللہ کے چھوٹے بھائی حافظ عبدالحی رحمہ اللہ حافظ قرآن تھے ، بہت ہی نیک متقی اور صالح بزرگ تھے، نوے سال کے لگ بھگ عمر پائی ۔ عمر بھر کتاب و سنت کی دعوت اور تبلیغ میں بسر کی ۔رزق حلال کا اس قدر خیال رکھتے کہ ایک دفعہ لاہور سے اپنے گاؤں منڈی واربرٹن (ضلع شیخوپورہ) آرہے تھے۔ جیب میں پیسے نہیں تھے، ٹرین پر بیٹھ کر منڈی واربرٹن پہنچ گئے۔ سٹیشن پر ہی کسی سے پیسے ادھار لئے اور منڈی واربرٹن سے لاہور کا ٹکٹ خرید کر پھاڑ دیا تاکہ حکومت کے خزانے کی واجب الادا رقم ادا ہوجائے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے اس قدر شغف تھا کہ کہیں جانا ہوتا تو پیدل سفر کو سواری پر صرف اس لئے ترجیح دیتے کہ پیدل سفر میں تلاوت زیادہ ہوتی ہے۔
تعلق باللہ کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ دل کا شدید دورہ ہوا گھر میں موجود افراد رونے دھونے لگے، طبیعت بحال ہوئی تو پوچھنے لگے ’’تم لوگ کیوں رو رہے تھے؟ ‘‘بچوں نے کہا ’’ہم سمجھ رہے تھے کہ اب آپ کا آخری وقت ہے اور آپ جاں بر نہیں ہو سکیں گے۔ ‘‘فرمانے لگے ’’اس میں فکر کی کون سی بات ہے، میں اپنے سجن (دوست) کے پاس ہی جارہاتھا کسی دشمن کے پاس تو نہیں جا رہا تھا۔‘‘
مرحوم کے صاحبزادے شیخ الحدیث علامہ عبدالسلام کیلانی حفظہ اللہ (فاضل جامعہ اسلامیہ ، مدینہ منورہ) راوی ہیں کہ ان کی تدفین کے وقت اتنی تیز خوشبو آئی کہ وہاں پر موجود تمام افراد کے دل معطر ہوگئے۔ بعض لوگوں کا گمان یہ تھا کہ شاید کسی نے قبر میں خود خوشبو ڈالی ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا۔
3 قبر میں روشنی :
سوہدرہ (ضلع گوجرانوالہ) کے مشہور عالم دین مولانا حافظ محمد یوسف رحمہ اللہ راوی ہیں کہ ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ ایک بجے کے قریب کچھ لوگ آئے ، دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے دروازہ کھولا، تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا ایک عزیز فوت ہوگیا ہے بیماری کی وجہ سے لاش زیادہ دیر رکھنے کے قابل نہیں ہم اسی وقت اس کی تدفین کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ آکر نماز جنازہ پڑھا دیں ۔ میں نے نماز جنازہ پڑھائی ،گورکن تدفین کے لئے قبر تیار کرنے لگا، تو اچانک ساتھ والی قبر کھل گئی جس سے اس قدر تیز