کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 76
مگرحالات سے محسوس ہوتا تھا کہ عورت بے گناہ تھی۔ قبر کشائی ہر اک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ہم ڈاکٹر لوگ تو اس کے عادی ہوتے ہیں۔ قبر کے اندر کی گھٹن اور لاش کی کیفیت بڑے بڑے دل والوں سے نہیں دیکھی جاتی۔ میں نے سو کے قریب قبر کشائیاں کیں ، مگر کبھی مجسٹریٹ یا پولیس والوں کو قریب آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ وہ ڈیوٹی پر لازم ہوتے، مگر دور جا کر بیٹھ جاتے۔ اس دن حسب معمول قبر کھودنے والے نے قبر کھودی اور مٹی ہٹائی۔ ہم لوگ سرہانے کھڑے تھے اور آنے والے لمحات سے نبرد آزمائی کے لئے ذہنی طور پر تیار تھے۔ یک لخت قبر کے اندر سے عطر بیز مہک نکلی جیسے ہم کسی چنبیلی کے باغ میں کھڑے ہوں۔ میں نے قبر کے اندر جھانک کر دیکھا کہ دفناتے وقت کسی نے پھول تو نہیں رکھ دیئے، حالانکہ یہ خام خیالی تھی۔ اگر پھول رکھے بھی ہوتے تو لاش کی مخصوص بو پھولوں سے زیادہ تیزہوتی ہے ۔ بعدمیں سول سرجن نے بتایا کہ یہی خیال انہیں آیا ۔ جوں توں میت باہر نکالی، تو خوشبو کی لپٹوں سے دل و دماغ معطر ہوگئے۔ اتنی دیر میں خوشبو دور تک پھیل گئی۔ تھانیدار اور مجسٹریٹ بھی اٹھ کر قریب آگئے ۔ وہاں پولیس نہ ہوتی تو ایک مجمع لگ جاتا۔ ڈاکٹر شفیع بولے: ’’سائیں ! دیکھو خوشبو ایسی ہے جیسے ہم جنت کے باغ میں کھڑے ہوں۔‘‘سبحان اللہ ، سبحان اللہ ، کہتے ان کی زبان تھک رہی تھی۔ لاش دیکھی تو انتہائی تروتازہ ، چہرہ مجلاء و مصفا۔ معلوم ہوتا تھا مقتولہ آرام سے سورہی ہے۔ پولیس والے بولے :’’رب کی شان! یہ ثابت ہوگیا کہ مائی پر جھوٹاالزام لگایاگیا تھا۔‘‘ میں پیچھے ہٹا تو سول سرجن بھی ہٹ گئے۔ ہمارا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ اس لاش کا پوسٹ مارٹم کریں۔ اتنے میں اس کا شوہر ، جو بیوی کی ہلاکت کے بعد مفرور ہوگیا تھا ، چیخیں مارتا نہ معلوم کہاں سے آگیا اور پولیس والوں سے کہنے لگا:’’مجھے گرفتار کرلو، میری بیوی بے قصور تھی۔ اس پر جھوٹا الزام تھا…‘‘ پولیس اور مجسٹریٹ موجود تھے۔ اس کا بیان لیا گیا جس میں اس نے اعتراف جرم کر لیا ، مگر پوسٹ مارٹم نہ ہونے دیا۔[1]
[1] میڈیکل آفیسر کی پراسرار ڈائری، از ڈاکٹر سید زاہد علی واسطی، اردو ڈائجسٹ ، لاہور، نومبر 1996ء