کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 75
اظہار کرتے ہوئے کہا’’ میرے لئے یہ مشاہدہ کسی طبی معجزے سے کم نہیں ، یہ حرکت اور سانپ سانپ کی آوازیں بلا شبہ ایک میت کے منہ سے نکلی ہیں اس گہری بے ہوشی کے عالم میں وہ بو ل سکتی تھی نہ حرکت کرسکتی تھی۔[1] یہ چند واقعات عذابِ قبر(یا برزخ) سے متعلق تھے۔ اب چند ایک واقعات ثواب ِقبر کے متعلق بھی پڑھ لیجئے۔ 1 قبر سے خوشبو: ڈاکٹر سید زاہد علی واسطی راوی ہیں ’’ میں ون یونٹ کے زمانے میں رتو ڈیرو، ضلع لاڑکانہ میں بحیثیت میڈیکل آفیسر تعینات تھا۔ ایک روز ایک پولیس ہرکارہ کاغذات لے کر آیا کہ قبر کشائی کرنی ہے۔ سول سرجن ضلع کے تمام ہسپتالوں کا مہتمم ہوتا تھا ۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے قبر کشائی کے لئے بورڈ تشکیل دیا، تو ڈاکٹر محمد شفیع صاحب ،سول سرجن کے ساتھ ،میں بھی شامل تھا۔ یہ قبرستان رتو ڈدیرو سے دو میل دُور ایک گاؤں میں تھا جس کا نام اب ذہن سے محو ہوگیا ہے۔ پولیس کاغذات سے معلوم ہوا کہ یہ ایک عورت کی لاش ہے جو تقریبا ً دو ماہ قبل دفن کردی گئی تھی۔ اس کے شوہر نے اس وجہ سے قتل کردیا تھا کہ اس عورت کے کسی آدمی سے ناجائز تعلقات تھے۔ مقررہ دن میں اس گاؤں کے وڈیرے کے ڈیرے پر پہنچ گیا ۔ سول سرجن لاڑکانہ بھی آگئے تھے ۔ ڈیرہ دار کا اصرار تھا کہ چائے پی کر روانہ ہوں۔ مجسٹریٹ صاحب آگئے ۔ پولیس قبرستان پہنچ چکی تھی۔ جب چائے آئی تو معلوم ہوا کہ یہ چائے نہیں مکمل لنچ تھا۔ اس دوران عجیب انکشافات ہوئے۔ معلوام ہوا کہ یہ عورت بہت نیک تھی، جس کی عمر بمشکل ستائیس برس تھی۔ نماز روزے کی پابند تھی، پانچ سال شادی کو ہوگئے تھے، مگر اولاد نہیں تھی۔ شوہر کے تعلقات کسی اور عورت سے ہوگئے تھے اور وہ اس بیوی کو راستے سے ہٹانا چاہتا تھااور الٹا الزام لگا کر کہ تیرے مراسم فلاں آدمی سے ہیں ، روز مارتا تھا ۔وہ شخص ،جس سے تعلقات کا الزام لگایا گیا تھا ، اس عورت کے باپ سے بھی بڑا تھا ۔ ایک دن صبح کے وقت وہ بد نصیب بستر پر مردہ پائی گئی ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ،
[1] دولت سے محبت کا انجام ، ازمحمداکرم رانجھا ، ہفت روزہ الاعتصام ، لاہور ستمبر 1999ء