کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 73
صرف میرے ہاتھ کو جلا ڈالے گا بلکہ میرے باقی جسم کو بھی مکئی کے بھٹے کی طرح ابال کر رکھ دے گا۔ میں نے اوسان بحال رکھے اور جلدی سے فوجی ککری نکالی اور اپنا بایاں بازو کاٹ کر پھینک دیا۔ میں نے اپنے آپ کو نہال سنگھ کی گرفت سے چھڑا لیا تھا، لہٰذا جلدی سے گھوڑے سمیت کنارے کا رخ کیا۔ میجر نہال سنگھ مجھے آوازیں دیتے دیتے اور درد سے چیختے کراہتے گھوڑے سمیت کھولتے پانی کی دیگ میں ڈوب چکا تھا اور سطح آب پر بڑے بڑے اونچے آتشیں بلبلے اٹھ رہے تھے۔ کنارے کے قریب پانی کا درجہ حرارت نارمل معلوم ہوا۔
وہ قہر خداوندی …بچھو… اپنا کام کرکے جا چکا تھا مجھے کہیں دکھائی نہ دیا ۔ اللہ کے لشکروں میں سے وہ اکیلا ایک غیبی لشکر کے مانند تھا ۔ اس نے مجھ سے کوئی تعرض نہیں کیا ۔ غالباً جدھر سے آیا تھا ادھر ہی کو اپنے اصل کار مفوضہ کی طرف لوٹ گیا۔[1]
3 ٹیڑھی قبر :
گزشتہ روز ایک پولیس افسر کو سپرد خاک کیا جانے لگا تو اس کی قبر ٹیڑھی ہوگئی۔ جب نئی قبر کھودی گئی تو وہ بھی ٹیڑھی ہوگئی آغاز میں لوگوں نے اسے گورکن کا قصور سمجھا ،مگر جب یکے بعد دیگرے پانچ بار قبر کھودی گئی اوربار بار ٹیڑھی ہوتی رہی تو جنازہ میں شریک لوگوں نے مل کر میت کے لئے مغفرت کی دعا کی اور پانچویں بار زبردستی میت قبر میں اتار دی گئی حالانکہ قبر پہلے کی طرح ہی ٹیڑھی تھی۔ یہ واقعہ راولپنڈی کے مشہور قبرستان اُترامرال میں پیش آیا۔[2]
4 قبر میں سانپ اور بچھو :
نارنگ منڈی (ضلع شیخوپورہ) کے نواحی قصبے جئے سنگھ والا میں دو متحارب گروپوں کے درمیان فائرنگ ہوئی جس سے تین افراد ہلاک ہوگئے۔ ان میں سے ایک آدمی کو اس کے ورثاء تابوت میں بند کرکے دفن کرنے کے لئے لائے اور قبر کھودی تو اس سے سانپ اور بچھو نکل آئے ۔ورثاء نے خوف زدہ ہو کر دور سے ہی قبر پر مٹی ڈال دی اور تابوت واپس لے گئے۔[3]
[1] قبر کا بچھو، اردو ڈائجسٹ، اپریل 1992ء
[2] روزنامہ جنگ، لاہور، 17دسمبر1990ء ، جمادی الاول 1411ھ ، بروز پیر
[3] روزنامہ نوائے وقت ، لاہور 9 اگست 1993ء