کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 67
لوٹانے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ مثلاً ہر شخص کے سلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک جسد ِاطہر میں لوٹائی جائے یا دن میں ایک بار کسی وقت لوٹائی جائے یا ہفتہ میں ایک بار یا مہینہ یا سال میں ایک بار اور تمام لوگوں کا اکٹھاسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دیا جائے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کا اکٹھا جواب ارشاد فرمادیں۔ روح جسد ِ اطہر میں لوٹانے کی ان میں سے کوئی ایک صورت ہے یا ان سب کے علاوہ کوئی اور ہی صورت ہے۔ یہ حقیقت صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ یہی معاملہ درود شریف کا ہے کیاوہ روزانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائے جاتے ہیں یا جمعہ کے دن جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے امور ایسے ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ ہمارے لئے ان تمام باتوں پر ایمان لانا واجب ہے، لیکن ان کی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لئے ممکن ہی نہیں اور ضروری بھی نہیں۔ کسی بات پر ایمان لانا اس کی کیفیت کو سمجھنے کے ساتھ مشروط نہیں ہے ۔کتنی ہی باتیں ایسی ہیں جن پر ہمارا ایمان ہے لیکن ان کی کیفیت کو ہم اس دنیا کی زندگی میں سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں۔ مثلاً رات کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ کے آسمان اول پر نازل ہونے پر ہمارا ایمان ہے لیکن اس کی کیفیت معلوم نہیں۔ کراماً کاتبین کے نامہ اعمال تیار کرنے پر ہمارا ایمان ہے ، لیکن اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں۔ قیامت کے روز اعمال کے تلنے پر ہمارا ایمان ہے لیکن اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج پر ہمارا ایمان ہے ، لیکن اس کی کیفیت معلوم نہیں۔ ایسی چند ایک نہیں بلکہ سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں جن پر ہمارا ایمان ہے لیکن ان کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں۔ برزخی زندگی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کا جسد ِ اطہر میں لوٹایا جانا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کے سلام کا جواب دینا، فرشتوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک لوگوں کا درود پہنچانا ، جمعہ کے دن کا درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا جانا یہ سارے امور بھی انہی میں سے ہیں جن کی کیفیت اور حقیقت کو سمجھنا ہمارے لئے ممکن نہیں، لیکن ان پر ایمان لانا واجب ہے، لہٰذا ان احادیث سے نہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں زندہ ہونا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی ان احادیث سے یہ قیاس درست ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماراسلام سنتے اور اس کا جواب دیتے ہیں لہٰذا ہماری دیگر داد فریاد اور دعا پکار بھی سنتے ہیں اور اس کا جواب دیتے ہیں یا