کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 62
3 جنگ اُحد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پھیل گئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میدان جنگ میں مایوس ہو کر بیٹھ گئے جس پر اللہ کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿اَفَاْئِنْ مَاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ﴾(144:3)
’’ کیا اگر محمد (طبعی موت) مر جائیں یا (میدان جنگ میں)قتل کردیئے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ ‘‘(سورہ آل عمران ، آیت نمبر144)
اگر چند لمحے وفات کے بعد پھر نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی دنیا والی زندگی ملنے والی تھی تو پھر ارشاد الٰہی یوں ہونا چاہئے تھا کہ فکر نہ کرو ، مرنے یا قتل ہونے کے باوجود محمد تمہارے درمیان موجود رہیں گے۔ تمہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ایسانہیں فرمایا گیا ۔
4 سورہ آل عمران کی آیت میں اللہ پاک نے پہلے انبیاء کا حوالہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’انہیں بھی موت آئی لہٰذا تمہیں بھی آئے گی-‘‘ پہلے انبیاء میں سے دو کی موت کا واقعہ خود قرآن مجید میں بیان فرمایا گیا ہے، جو صراحتاً انبیاء کی وفات کی تصدیق کرتاہے ۔ سورہ سباء میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’وہ لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے کہ انہیں موت آگئی اور وہ جنات جنہیں علم غیب کا دعوی تھا (یا جن کے بارے میں لوگوں کو گمان تھا کہ انہیں علم غیب ہے) کو لمبی مدت تک یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں ۔‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے
﴿فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّہُمْ عَلٰی مَوْتِہٖ اِلاَّ دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْکُلُ مِنْسَأَتَۃُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ،﴾(14:34)
’’ پس جب ہم نے سلیمان پر موت کا حکم بھیجا تو جنات کو اس کی موت کا پتہ دینے والی چیز اس گھن کے سوا کوئی نہ تھی جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا پھر جب سلیمان گر پڑا تو جنوں پر یہ بات کھل گئی کہ اگر وہ غیب جاننے والے ہوتے تو اس ذلت آمیز عذاب میں مبتلانہ رہتے ۔‘‘(سورۃ سبا آیت 14)
بعض اہل علم کے نزدیک حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کے بعد گھن کوعصا کھانے میں ایک سال کا عرصہ لگا اگر اسے چھ ماہ بھی شمار کریں تب بھی انبیاء کرام علیہم السلام پر لمحہ بھر کے لئے موت آنے اور پھر دنیا وی زندگی دئے جانے کا دعویٰ تو غلط ثابت کرنے کے لئے یہ عرصہ کافی ہے ۔فرمان الٰہی کے مطابق حضرت