کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 61
مکان میں بوجہ ادب دُور کھڑا ہوں ۔ حضرت سید نے میرا ہاتھ پکڑ کر حضور کے ہاتھ میں دے دیا۔[1] 7 حضرت جی (مولانا اللہ یار خان) عام مجلس میں ذکر فرمایا کرتے تھے کہ مجھے حضور نے مُنڈی ہوئی داڑھی والے کسی شخص کو (دربار نبوی میں) ساتھ لانے سے منع فرمایا ہے حالانکہ حضرت جی بھی بالارادہ یہ نہیں کرتے تھے مگر اس کے بعد تو یہ حال ہو گیا کہ دربار نبوی کی حاضری کے وقت خاص خیال رکھا جاتا تھا اور رکھا جاتا ہے کہ کوئی ایسا ساتھی نہ ساتھ چلا جائے جس کی داڑھی منڈی ہو۔ [2] ’’حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کا عقیدہ رکھنے والے حضرات کے دعاوی کی یہ چند مثالیں ہیں جو ہم نے یہاں نقل کی ہیں۔کتاب و سنت کی روشنی میں تجزیہ کریں کہ یہ عقائد درست ہیں یا غلط ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مبارک کے بارے میں کتاب و سنت کے حقائق درج ذیل ہیں: 1 سورہ زمر میں ارشاد مبارک ہے : ﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ﴾ (30:39) ’’اے محمد ! بے شک تم بھی مرنے والے ہو اور یہ بھی مرنے والے ہیں۔ ‘‘(آیت 30) اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مرنے کے لئے جو لفظ عام مسلمانوں کے لئے استعمال فرمایا ہے وہی لفظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی استعمال فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جیسی موت دوسرے لوگوں پر واقع ہوتی ہے ویسی ہی موت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر واقع ہوئی ۔ 2 سورہ انبیاء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَ مَاجَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاْئِنْ مِتَّ فَہُمُ الْخَالِدُوْنَ،﴾(34:21) ’’ تم سے پہلے بھی ہم نے کسی بشر کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی کیا تم مرجاؤ گے تو یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ ‘‘ (آیت نمبر 34) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتیں واضح فرمائی ہیں۔ پہلی یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو انبیاء کرام علیہم السلام گزر چکے ہیں ان پر بھی موت آئی ۔دوسری یہ کہ تم پر بھی موت آنے والی ہے ابدی زندگی نہ ہم نے تم سے پہلے انبیاء کو دی نہ تمہیں دیں گے۔
[1] شمائل امدادیہ از حاجی امداد اللّٰه ، صفحہ 108 [2] ارشاد السالکین ، حصہ اول ، صفحہ 80