کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 60
اول الذکر گروہ کے عقائد کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:
1 انبیاء کرام علیہم السلام کی حیات (برزخی) حقیقی ، حسی و دنیاوی ہے۔ ان پر تصدیق وعدہ الٰہیہ کے لئے محض ایک آن کی آن موت طاری ہوتی ہے۔ پھر فوراً ان کو ویسے ہی حیات عطا فرمادی جاتی ہے۔ [1]
2 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور وفات میں کوئی فرق نہیں ۔اپنی اُمت کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات ، نیّات، ارادے اور دل کی باتوں کو جانتے ہیں۔[2]
3 انبیاء کرام علیہما السلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں اور وہ ان سے شب باشی فرماتے ہیں۔[3]
4 امام و قطب سیدنا احمد رفاعی رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کے سامنے کھڑے ہوئے اور عرض کی دست مبارک عطا ہو کہ میرے لب اس سے بہرہ پائیں چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک روضہ شریف میں سے ظاہر ہوا اور امام رفاعی نے اس پر بوسہ دیا۔[4]
5 یہ ساڑھے چھ بجے (شام) کا وقت تھا کہ بارگاہ نبوت سجی تھی، مجھے تقریباً پچیس سال ہوئے ہیں کہ بارگاہ نبوت کی حاضری سے مشرف ہوں۔ شیخین کریمین امیرا لمومنین سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بہت زیادہ متوجہ پایا ۔ خصوصی اہتمام میں حضرت جی (مولانا اللہ یار خان) کو گھرا پایا۔ میں بے نوا ہمرکاب تھا، بہت شاندار اور عجیب طرح کا لباس حضرت کے زیب تن تھا ۔ سر پر تاج جگمگا رہا تھا ۔ خصوصی نشست بنی تھی۔ نبی رحمت تبسم کناں ابر رحمت برسارہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ عزت افزائی جو ایک بالکل انوکھی طرز پر ہے غالباً حضرت جی کو کوئی بہت ہی خاص منصب عطا ہورہا تھا یہ کیفیت سارے چھ بجے سے پونے آٹھ بے تک رہی ۔[5]
6 میری بیعت باطن ، بلا واسطہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح ہوئی کہ میں نے دیکھا حضور ایک بلند جگہ پر رونق افروز ہیں اور سید احمد شہید کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ہے اور میں بھی اسی
[1] ملفوظات از احمد رضا خان بریلوی، حصہ سوم ، صفحہ 276
[2] خالص الاعتقاد، صفحہ 39
[3] ملفوظات از احمد رضا خان بریلوی، حصہ سوم صفحہ 276
[4] مجموعہ رسائل از احمد رضاخان بریلوی، جلد اول ، صفحہ 173
[5] ارشاد السالکین ، حصہ اول، از حضرت مولانا محمد اکرم ، صفحہ 19