کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 57
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں(ان کی برزخی زندگی کا ) شعور نہیں۔‘‘ (سورہ بقرہ ، آیت 154) سورہ بقرہ کی اس آیت میں شہداء کو ’’زندہ‘‘ کہنے کا شان نزول یہ ہے کہ جنگ بدر میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کفار نے یہ کہا کہ’’ فلاں فلاں مر گیا ہے اور زندگی کے عیش و آرام سے محروم ہوگیا ہے ۔‘‘جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’ شہیدوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں ایسی قندیلوں میں رہتی ہیں جو عرش الٰہی سے لٹکی ہوئی ہیں جب چاہتی ہیں جنت میں سیر کے لئے چلی جاتی ہیں،پھر ان قندیلوں میں واپس آجاتی ہیں۔ ایک بار ان کے رب نے ان کی طرف توجہ فرمائی اور پوچھا ’’تمہاری کوئی خواہش ہے؟‘‘ شہداء کی ارواح نے جواب دیا ’’ہم جہاں چاہیں جنت کی سیر کرتی ہیں ہمیں اور کیا چاہئے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ ان سے یہی سوال دریافت فرمایا ۔ پھر جب شہداء کی ارواح نے دیکھا کہ جواب دیئے بغیر چھٹکارا نہیں تب انہوں نے جواب دیا ’’ اے ہمارے رب ! ہم چاہتی ہیں کہ ہماری ارواح کو ہمارے اجسام میں لوٹا دے یہاں تک کہ ہم تیری راہ میں دوبارہ قتل کی جائیں۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ ان کی کوئی خواہش نہیں تو انہیں چھوڑ دیا۔‘‘ (مسلم) سورۃآل عمران کی آیت یہ ہے : ﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم مْوَاتًا بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ،﴾ (169:3) ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ سمجھو، وہ (برزخ میں) زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق دیئے جاتے ہیں ۔‘‘(سورہ آل عمران ، آیت نمبر 169) اس آیت میں شہداء کو زندہ کہنے کا شان نزول یہ ہے کہ جنگ احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ سے مدینہ کے باہر کھلے میدان میں جنگ کرنے کا فیصلہ فرمایا تو منافقین کا گروہ یہ کہتے ہوئے جہاد سے