کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 56
شہداء کی برزخی زندگی:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دوجگہ پر شہداء کو زندہ (بَلْ اَحْیَائٌ) کہا ہے اور ساتھ ہی انہیں مردہ کہنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ یہ دونوں آیات، قائلین سماع موتی کے نزدیک شہداء (اور پھر اس کے ساتھ دیگر اولیاء اور صلحاء) کا اپنی قبروں میں زندہ ہونے کا بہت بڑا ثبوت ہیں۔ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے اپنی ایک کتاب میں درج ذیل واقعہ نقل کیا ہے۔
’’دو بھائی اللہ کے راستے میں شہید ہوگئے ۔ ان کا تیسرا بھائی بھی تھا جو زندہ تھا، جب اس کی شادی کا دن آیا تو دونوں شہید بھائی اس کی شادی میں شرکت کے لئے تشریف لائے ، تیسرا بھائی بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ تم تو مرچکے تھے، انہوں نے فرمایا للہ تعالیٰ نے ہمیں تمہاری شادی میں شرکت کے لئے بھیجا ہے چنانچہ ان دونوں بھائیوں نے اپنے تیسرے بھائی کا نکاح پڑھا اور واپس (عالم برزخ میں) چلے گئے۔‘‘[1]
شہداء ، اولیاء، صلحاء کو اپنی قبروں میں زندہ ثابت کرنے کے بعد ان سے حاجات طلب کرنا ، مرادیں مانگنا ، مشکل اور مصیبت میں انہیں پکارنا ان کے نام کی نذرو نیاز دینا ا ن کے مزاروں پر چڑھاوے چڑھانا اور عرس لگانا سب کچھ جائز اور صحیح ثابت ہوجاتا ہے۔یہاں بھی قائلین سماع موتی کو وہی غلط فہمی ہوئی ہے جس کا ذکر اس سے پہلے ہم گزشتہ صفحات میں کر آئے ہیں کہ انہوں نے شہداء کی برزخی زندگی کو دنیا کی زندگی جیسا سمجھ لیا۔ برزخ میں ان کے کھانے پینے کو دنیا کے کھانے پینے جیسا سمجھ لیا ، ان کے برزخ میں سننے اور بولنے کو دنیا میں سننے اور بولنے جیسا سمجھ لیا۔ اس بات کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں کہ برزخ کی زندگی ایک مکمل زندگی ہے جس میں مُردوں کا کھانا پینا، بولنا، سننا، دیکھنا، پہچاننا ، سوچنا، خوش ہونا ، سب کچھ ثابت ہے لیکن یہ سب دنیا کے کھانے ، پینے ، بولنے، سننے ، دیکھنے ، پہچاننے ، سوچنے، خوش ہونے سے مختلف ہے تاہم مذکورہ دونوں آیات کے شان نزول سے بھی اصل حقیقت کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی، لہٰذا ہم یہاں دونوں مذکورہ آیات کا شان نزول بیان کرنا چاہیں گے۔
سورہ بقرہ کی آیت یہ ہے:
﴿وَ لاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم مْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ،﴾ (154:2)
[1] مجموعہ رسائل اعلیٰ حضرت ، جلد اول ، صفحہ175