کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 55
اللہ تعالیٰ کے اس واضح ارشاد کے باوجود جن حضرات کو اس بات پر اصرار ہے کہ وہ برزخی زندگی کا شعور رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ مردے ویسا ہی سنتے ہیں جیسا دنیا کی زندگی میں سنتے تھے ،مردے ویساہی بولتے ہیں جیسا دنیا کی زندگی میں بو لتے تھے، ویساہی کھاتے پیتے ہیں جیسا دنیا کی زندگی میں کھاتے پیتے تھے ۔ان کا موقف نہ صرف یہ کہ عقلاً درست نہیں بلکہ وہ حضرات قرآن مجید کی اس آیت کریمہ کا کھلم کھلا انکار بھی کررہے ہیں۔ آخر میں ہم سماع موتی کے قائلین حضرات سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ برزخ میں ہر مردے کا (خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر، صالح یا غیر صالح، ولی ہو یا غیر ولی) سننا ، بولنا ، دیکھنا، پہچاننا ، مومن ہو تو اس کا راحت اور مسرت محسوس کرنا، قیامت قائم ہونے کی دعا مانگنا، سب کچھ ثابت ہے ۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ صرف اولیاء کے سننے کوہی ہمیشہ زیر بحث لایاجاتا ہے۔ غیر اولیاء کا سننا کبھی زیر بحث نہیں لایا جاتا حتی کہ اولیاء کا بھی بولنا، دیکھنا، پہچاننا مسرت اور راحت محسوس کرنا ، کھانا پینا اور دیگر افعال کبھی زیر بحث نہیں لائے جاتے ۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اولیا اورصلحاء کے برزخ میں سننے کو ہی بنیاد بنا کر ان کے مزاروں پر حاضری دینے، مرادیں مانگنے ، حاجات طلب کرنے، مصیبت اور مشکل میں انہیں پکارنے اور ان سے گناہ بخشوانے کا عقیدہ قائم ہوتا ہے اور پھر اسی عقیدے کی بنیاد پر لوگوں سے چڑھاوے اور نذرانے وصول کئے جاتے ہیں ۔اگر لوگوں کو یہ صاف صاف بتا دیاجائے کہ مردے صرف برزخ میں سنتے ہی نہیں بولتے بھی ہیں ، دیکھتے بھی ہیں ، پہچانتے بھی ہیں، کھاتے پیتے بھی ہیں ، راحت اور خوشی بھی محسوس کرتے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ اس دنیا کی زندگی جیسا نہیں بلکہ اس سے بالکل مختلف ہے، تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ دین خانقاہی کا سارا کاروبارختم ہوجائے گا۔ مزاروں کی رونقیں اور محفلیں ویران ہوجائیں گی، درگاہوں کے بھاری حکومتی وظائف ، گرانٹیں اور ٹھیکے ختم ہوجائیں گے ۔ ’’سجادہ نشین‘‘، ’’گدی نشین‘‘ ، ’’مخدوم‘‘، ’’درویش‘‘ ، ’’مجاور‘‘ عام انسانوں کی طرح پیٹ پالنے کے لئے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور یہ مشقت اور مصیبت آخر کون مول لے ۔ ع بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست