کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 51
دونوں ملتے ہیں، دل ، دماغ، آنکھیں، ناک، کان سب کچھ ہوتا ہے ،لیکن رحم کی دنیا باہر کی دنیا سے اس قدر مختلف ہوتی ہے کہ اگر بچے کو بتایا جائے کہ کچھ مدت بعد تم ایک ایسی دنیا میں آنے والے ہو جہاں ہزاروں میل بلند و بالا وسیع آسمان ہے ،حد نظر تک پھیلی ہوئی زمین ہے، زمین سے بھی بڑا ایک دھکتا ہوا آگ کا گولہ … سورج… روزنہ آسمان کی ایک سمت سے نکلتا ہے اور ساری دنیا کو روشن کردیتا ہے ۔ چند گھنٹوں کے بعد دوسری سمت غروب ہوجاتا ہے جس سے ساری دنیا پر تاریکی چھا جاتی ہے ۔ رات کے وقت آسمان پر خوبصورت چمکتا دمکتا چاند طلوع ہوتا ہے، جس کے ساتھ کروڑوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے ستارے ٹمٹماتے ہیں۔ بتایئے رحم مادر کی چھوٹی سی دنیا میں بسنے والا انسان کیا ان حقائق کو سچ تسلیم کرے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ رحم مادر کی مختصر دنیا میں رہتے ہوئے اس مادی دنیا کے حقائق کو جاننا ممکن ہی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کی اس کیفیت پر چند لفظوں میں بڑا خوب صورت تبصرہ فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے (اس حال میں) نکالا کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے۔ ‘‘(سورہ نحل ، آیت 78) اب آئیے چوتھے دور یعنی عالم برزخ کی طرف، کتاب و سنت سے عالم برزخ کے بارے میں ہمیں جو حقائق معلوم ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں: 1 مُردے بولتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’مرنے کے بعد نیک آدمی کی میت اپنے اہل خانہ سے مخاطب ہو کر کہتی ہے(( قَدِّمُوْنِیْ قَدِّمُوْنِیْ))’’ مجھے جلدی لے چلو مجھے جلدی لے چلو۔‘‘ اور برے آدمی کی میت (( یَا وَیْلَہَا اَیْنَ تَذْہَبُوْنَ بِہَا)) ’’ہائے افسوس !مجھے کہاں لئے جارہے ہو؟‘‘ (بخاری)اس حدیث سے تدفین کے بعد بھی میت کا بولنا ثابت ہے ۔ منکر نکیر کے سوالوں کے جواب میں نیک آدمی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کی شہادت دیتا ہے جبکہ کافر اور منافق آدمی ہَاہْ ہَاہْ لاَ اَدْرِیْ (ہائے افسوس) کہتاہے۔ (بخاری، ابوداؤد وغیرہ) ان احادیث سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مردے بولتے ہیں وہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بولنے کی اس صفت میں کسی کی بزرگی یا ولایت کا کوئی دخل نہیں ۔مردہ خواہ مومن ہو یا کافر، نیک ہو یا