کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 50
کرکے اس کو جنا۔ ‘‘(سورہ احقاف، آیت 15) انسانی زندگی کے سفر کا یہ دوسرا دور ہے۔[1] 3 عالم حیات :زندگی کے سفر کا یہ تیسرا دور ہے جس میں انسان مختصر سی مدت کے لئے قیام کرتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’میری امت کے لوگوں کی عمریں ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہیں۔‘‘ (ترمذی) کم و بیش لوگ اتنا ہی عرصہ اس دنیا میں قیام کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے سفر کے اگلے مرحلہ پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ 4 عالم برزخ: عالم برزخ ہمارے سفر کا (دنیا کے مقابلے میں) طویل ترین دور ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک کم و بیش چھ ہزار سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ (والعلم عند اللہ) لوگ اپنی قبروں میں پڑے ہیں ،سفر جاری ہے اور معلوم نہیں کب تک یہ سفر جاری رہے گا۔ اپنے اپنے وقت پر ہم میں سے ہر ایک کاروان برزخ کے مسافروں کے ساتھ شریک ہوتا چلا جائے گااور یہ سفر قیامت تک جاری رہے گا۔ 5 عالم آخرت : یہ ہمارے سفر کی آخری منزل ہے جس میں انسان اس دنیا والے جسم و جان کے ساتھ اٹھایا جائے گا ،حساب کتاب ہوگا اور لوگ اپنی اپنی حقیقی قیام گاہ …جنت یا جہنم… میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قیام کریں گے۔ مذکورہ پانچوں ادوار کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہردور کی کیفیات، دوسرے دور کی کیفیات سے یکسر مختلف ہیں۔ مثلاً پہلے دور یعنی عالم ارواح میں اللہ تعالیٰ نے تمام روحوں سے سوال کیا ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ؟‘‘ روحوں نے سنا ، سوچا، سمجھا اور جواب دیا ’’بَلٰی‘‘ … عالم ارواح میں سننا اور سوچنا اور بولنا کیا ایسا ہی تھا جیسا کہ اس دنیا میں سننا، سوچنا اور بولنا ہے؟ ظاہر ہے وہ ایسا ہر گز نہیں ہوگا کیو نکہ وہاں ہماری روحیں ان مادی جسموں کے بغیر تھیں لہٰذا وہاں کا سننا ، سوچنا اور بولنا اس مادی دنیا کے بولنے ، سوچنے اور سننے سے مختلف ہونا چاہئے۔ عالم ارواح میں ارواح کے سننے، سوچنے اور بولنے پر ہمارا ایمان ہے لیکن اس کی کیفیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ اب آئیے دور ثانی (یعنی رحم مادر) کی طرف جس میں انسانی جسم کی تخلیق ہوتی ہے ۔ روح اور جسم
[1] مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نحل ، آیت 78، سورہ مومنون، آیت 14، سورہ لقمان، آیت 14 وغیرہ