کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 48
دن کے لئے خروج کرتی ہیں پھر اسی طرح جسم میں ہوتی ہیں جس طرح پہلے تھیں۔ ‘‘[1] 7 مشائخ کی روحانیت سے استفادہ اور ان کے سینوں اور قبروں سے باطنی فیوض پہنچنا بے شک صحیح ہے۔[2] 8 حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اپنے مرشد میاں حاجی نور محمد کی وفات کے وقت ان کے پاس موجود تھے آپ فرماتے ہیں ’’ مرض الموت میں جب آپ نے یہ کلمات کہے کہ پیام سفر آخرت آگیا ہے تو میں پالکی کی پٹی کو پکڑ کر رونے لگا حضرت نے تسلی دی اور فرمایا ’’فقیر مرتا نہیں بلکہ ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقل ہوتا ہے۔ فقیر کی قبر سے وہی فائدہ ہوگا جو ظاہری زندگی میں ہوتا تھا۔‘‘[3] 9 حضرت (مولانا احمد یار) رحمہ اللہ دار دنیا سے پردہ فرماگئے انا للہ و انا الیہ راجعون مگر یاد رہے کہ حضرت سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے اس دور کے بانی شیخ تھے ،ہیں اور رہیں گے۔ نسبت رُوح ، رُوح سے مستفید ہونے کا نام ہے۔ دنیا ہو یا برزخ ، روح سے استفادہ یکساں ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دنیا میں ہر شخص خدمت عالیہ میں حاضر ہو سکتا تھا اور برزخ میں کسی ایسے آدمی کی ضرورت پیش آجاتی ہے جو برزخ تک اس کی راہنمائی کرے اور وہاں تک آدمی کو پہنچائے اور ایسا وہی شخص کرتا ہے جو ان حضرات کا خادم یا نمائندہ ہو ، فیض انہی کا ہوتا ہے مگر ا س (فیض) کی تقسیم اس ایک وجود کے ذریعے ہوتی ہے جسے خلیفہ کہا جاتا ہے۔‘‘ [4] 10 حضرت جی رحمہ اللہ (مولانا اللہ یار خان) کا وصال ہوگیا ۔ جسد مبارک اپنے حجرے میں محو استراحت تھا اور روح مبارک اعلی علیین میں متوجہ الی اللہ ، فجر کی نماز دار العرفان میں ادا کی اور یہاں میں نے روح پُر فتوح کو دار العرفان کی طرف متوجہ پایا ۔ برادرم کرنل مطلوب حسین مسلسل اصرار کر رہے تھے کہ حضرت جی رحمہ اللہ سے اجازت کیوں نہیں حاصل کرتے کہ جسد مبارک کو دار العرفان میں دفن کیا جائے میں نے (اجازت حاصل کرنے کی) پوری کوشش کی۔ عرض کیا کہ حضرت آپ کے اہل خانہ کو یہاں گھر بنا کر
[1] فتاوی نعیمیہ ، از اقتدار بن احمد یاربریلوی ، ص 225 [2] المہندعلی المنفذ ، از خلیل احمد سہارنپوری ، ص 39 [3] تاریخ مشائخ چشت، از مولانا زکریا، ص 234 [4] ارشاد السالکین ، حصہ اول ، از مولانا محمد اکرم ، صفحہ 25