کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 45
کہ ابھی بہت وقت ہے۔ طویل خواہشات ، طویل امیدوں اور طویل منصوبوں کے حصول کا سفر جاری و ساری رہتا ہے ۔ ڈالر، ریال، روپے ، پلاٹ ، فلیٹ، فیکٹری، کوٹھی، کار کے چکر میں ز ندگی بستر ہوتی رہتی ہے ۔ بلند تر معیار زندگی حاصل کرنے کی دوڑ میں شب و روز بسر ہوتے رہتے ہیں ۔دائیں بائیں اور آگے پیچھے اعزہ و اقارب کی اموات ہوتی رہتی ہیں انسان رسم تعزیت ادا کرکے پھر زندگی کی گہماگہمی میں جذب ہوجاتا ہے اور اسے یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی کہ موت کا فرشتہ میرے لئے بھی کوئی پیغام چھوڑ گیا ہے۔ نوشتہ دیوار سامنے ہوتا ہے لیکن زندگی کی دلفریبیاں پڑھنے کی فرصت ہی نہیں دیتیں۔ کہتے ہیں کسی شخص کی حضرت عزرائیل علیہ السلام سے دوستی ہوگئی تو اس نے حضرت عزرائیل علیہ السلام سے کہا ’’آپ نے جب میری طرف آنا ہو تو سال بھر پہلے بتا دینا تاکہ میں موت کے لئے کچھ تیاری کر لوں ۔‘‘ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے وعدہ فرمالیا ،لیکن ایک روز اچانک فرمان شاہی لے کرپہنچ گئے ۔حضرت عزرائیل کو یوں اچانک سامنے دیکھ کر وہ شخص حیران رہ گیا ۔ عرض کی’’ حضرت ! آپ نے تو مجھے سال بھر پہلے بتانے کا وعدہ فرمایا تھا، لیکن اب آپ اچانک تشریف لے آئے ؟‘‘ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے جواب دیا’’ اس سال کے دوران میں تمہارے فلاں فلاں عزیز کے ہاں آیا، تمہارے فلاں فلاں رشتہ دار کے پاس آیا ، فلاں فلاں دوست کے پاس آیا ، اور تمہیں یہی بتانے کے لئے آتا رہا کہ تیاری کرلو تمہارے پاس آنے ہی والا ہوں۔ میرا خیال تھا تم کافی عقل مند اور سمجھ دار ہو، سمجھ جاؤ گے اگر تم اتنے ہی احمق اور بے وقوف تھے کہ سمجھ نہیں سکے تو اس میں میرا کیا قصور؟ جب فرشتہ اجل سر پر آکھڑا ہوتا ہے تو دم ِ واپسیں انسان سوچتا ہے ساٹھ ستر سال کی زندگی تو بس یونہی آنکھ جھپکنے میں ہی گزر گئی۔بچپن ابھی کل کی بات ہے ، جوانی ایک حسین خواب سے زیادہ کچھ نہیں لگتی ، کھونے اور پانے کا جدول بنانے کی فرصت ہی نہیں ملی… اتنی طویل اور اتنی مختصر زندگی… تب انسان حسرت و یاس کی تصویر بنے زبان حال سے یہ کہتا ہوا اس دنیا سے رخت سفر باندھتا ہے۔ ع عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے ، دو انتظار میں کاش ہمیں کبھی اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہونے والی اموات پر فرشتہ اجل کا پیغام سننے کی