کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 44
کا انتظار نہ کرو اور اگر صبح کر لو تو شام کا انتظار نہ کرو، صحت کو بیماری سے پہلے اور زندگی کو مت سے پہلے غنیمت جانو۔ ‘‘(بخاری)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر ننگے بدن سوئے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر چٹائی کے نشان پڑ گئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ فرماتے توہم آپ کے لئے اچھا سا بستر مہیا کردیتے ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میرا دنیا سے کیا تعلق؟ میرا دنیا سے تعلق تو بس اتنا ہی ہے جتنا ایک مسافر درخت کے سائے تلے سستاتاہے اور پھر چل دیتا ہے اور درخت کو چھوڑ دیتا ہے۔‘‘ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
اس دنیا میں انسان کے عارضی قیام کو اس مثال سے بہتر کسی دوسری مثال سے سمجھانا ممکن ہی نہیں ۔ یہ دنیا فقط ایک سرائے ہے جس میں ہر مسافر کم یا زیادہ وقت کے لئے رکتا ہے اور پھر اگلے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔ سرائے میں چند گھنٹوں کے لئے سستانے والا مسافر کبھی وہاں زمین خریدنے یا مکان بنانے یا کاروبار چلانے کی فکر نہیں کرتا بلکہ گردوپیش سے بے نیاز چند لمحے گزارتا اور چلتا بنتا ہے۔ یہ چند گھنٹوں کی زندگی انسان کے لئے کس قدر پر فریب ہے ۔ماہ و سال گزرتے ہیں تو انسان خوش ہوتا ہے میں جوان ہورہا ہوں حالانکہ ہر گزرنے والا لمحہ اسے اس کی منزل … موت… کے قریب کئے جارہا ہوتا ہے ع
غافل ، تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
جوں جوں زندگی گزرتی جاتی ہے امیدیں جوان ہوتی جاتی ہیں۔ انسان اپنی خواہشات کے حصول کے لئے دن رات ایک کردیتا ہے ،زندگی بڑی حسین وجمیل لگنے لگتی ہے اٹھارہ اٹھارہ بیس بیس گھنٹے کام میں گزار دیتا ہے، دن رات کام کرتے کرتے بالوں میں سفیدی آنے لگتی ہے۔انسان تب بھی یہی سوچتا ہے ع
ابھی تو میں جوان ہوں
وقت کا دریا کامیابیوں ، ناکامیوں ،خوشیوں اور غموں کے نشیب و فراز کے ساتھ مسلسل بہتا رہتا ہے۔ آہستہ آہستہ انسان اپنے قویٰ مضمحل محسوس کرنے لگتا ہے ،بڑھاپا موت کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے، لیکن موت سے غافل انسان شاہراہ زندگی پر پھر بھی ویسے ہی رواں دواں رہتا ہے اور یہی سمجھتا ہے