کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 43
سہاگ سے محروم ہوجاتی ہیں ،کہیں بہن بھائیوں کے بازو کٹ جاتے ہیں ۔ درد و الم کی اس اضطرابی کیفیت میں عموماً پسماندگان میں دو طرح کا رد عمل پیدا ہوتا ہے : 1 مرنے والے کی جدائی کا غم : یہ ایک بالکل فطری امر ہے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے غم اور صدمہ کا اظہار، عیب ہے نہ ممنوع۔ 2 مرنے والے کے کاروبار ِ دنیا کی فکر:گھر کے کسی اہم فرد کے رخصت ہونے پر پسماندگان کے وسائل زندگی کا منقطع ہونا ، اس کے متبادل انتظام کی فکر کرنا، اس کی وراثت تقسیم کرنا ایسے امور ہیں جن سے انسان کو چاروناچار سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ۔شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے امور دنیا کی فکر کرنا اور انہیں چلانا بھی کوئی عیب نہیں بلکہ ضروری ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اعزہ کی موت کا یہ رد عمل شرعی حدود سے تجاوز کرکے پسماندگان کے دل و دماغ پر کچھ اس طرح چھا جاتا ہے کہ موت کا اصل پیغام کسی کے ذہن میں نہیں آتا۔ موت و حیات کے ان ہنگاموں میں کسی کو یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی کہ ان دو امور کے علاوہ بھی کوئی سوچنے کی بات ہے یا نہیں؟ حالانکہ پسماندگان کے لئے موت کا اصل پیغام ہی یہ ہوتا ہے ’’آج اس کی کل تمہاری باری ہے۔‘‘ فرشتہ اجل ہر انسان کے تعاقب میں ہے ہمارے گردو بیش کتنی ایسی مثالیں ہیں کہ اچھے بھلے صحت مند لوگ رات کو حسب معمول اپنے بستر پر سوتے ہیں لیکن صبح اٹھنے کی مہلت نہیں ملتی، کتنے لوگ اپنے گھروں سے عمرہ یا حج کے ارادے سے نکلتے ہیں لیکن واپس گھر پہنچنا نصیب نہیں ہوتا، کتنی باراتیں شہنائیوں کی گونج میں گھروں سے نکلتی ہیں لیکن واپسی صف ماتم کے ساتھ ہوتی ہے، کتنے لوگ اپنے معمول کے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں اچانک دل کا دورہ پڑتا ہے اور سارے کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔زندگی اور موت میں فرق تو بس اتنا ہی ہے جتنا آج اور کل میں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حقیقت کتنے خوبصورت انداز میں بیان فرمائی ہے،اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لاَ حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَلاَ عَمَلٌ ’’آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں اور کل حساب کا دن ہوگا عمل کا نہیں۔‘‘ (بخاری) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ نصیحت فرمائی ’’عبداللہ ! دنیا میں مسافر یا راہ چلنے والے کی طرح زندگی بسر کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے ’’لوگو! اگر شام کر لو تو صبح