کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 42
کسے یاد آئے گی؟ آخرت کا خیال کسے آئے گا؟ عذاب یا ثواب کی فکر کسے ہوگی؟ اللہ کا خوف کس کے دل میں پیدا ہوگا؟ دنیا سے بے رغبتی کیوں کر پیدا ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قبروں پر میلے ٹھیلے لگانا ، مزار تعمیر کرنا، عرس لگانا ، چراغاں کرنا، پھولوں کی چادریں چڑھانا ، قبر یا مزار کو بوسہ دینا، قبر یا مزار پر جھکنا یا سجدہ کرنا ، قبر کا طواف کرنا، قبر پر قربانی کرنا، کھانا تقسیم کرنا، صاحب قبر کے سامنے اپنی مشکلات اور حاجات پیش کرنا قطعاً ممنوع اور حرام ہے، شرک اکبر کا درجہ رکھتا ہے۔ تاہم جن علماء کرام کے مسلک میں یہ تمام امور جائز ہیں ان کی خدمت میں ہم بڑی دردمندی اور خلوص سے یہ درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ براہ کرم ! غور فرمائیں کہ چڑھاوے چڑھانے، عرس منانے ،نذرو نیاز دینے، منتیں ماننے، صدقہ خیرات کرنے اور مرادیں مانگنے کے بہانے مزاروں پر خانقاہوں اور آستانوں پر تشریف لانے والے مرد اور عورتیں معاشرے میں جس بے حیائی ، فحاشی ، بدکاری اوردیگر جرائم کے حیاسوز کلچر کو جنم دے رہے ہیں اس کاذمہ دار کون ہے؟ قیامت کے روز اس کی جواب دہی اور مسؤلیت کس کے ذمہ ہوگی؟ ثانیاً ہم ان علماء کرام کی طرف توجہ ایک اور بات کی طرف بھی مبذول کروانا چاہیں گے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خیر اوربھلائی سے خیر اور بھلائی کے سوتے پھوٹتے ہیں جبکہ برائی اور گناہ سے برائی اور گناہ کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آم کا درخت بویا جائے تو اس سے تھور کا پھل لگے یا تھور کا درخت بویا جائے اور اس پر آم کا پھل لگے۔ اگر مزاروں اور خانقاہوں پر نذریں نیازیں دینا، چڑھاوے چڑھانا ، مرادیں مانگنا ، عرس او رمیلے لگانا ، واقعی شریعت اسلامیہ میں جائز اور نیکی کاکام ہے تو پھر اس خیر اور نیکی کے کام سے فحاشی ، بے حیائی ، بدکاری اور جرائم کا کلچر کیوں جنم لے رہا ہے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاشرے کو جوا، زنا، شراب ، منشیات اور دیگر جرائم سے پاک کرنے کا عزم رکھنے والے علماء کرام کیا ہمارے اس سوال پرسنجیدگی سے غور کرنا پسند فرمائیں گے؟ موت کا پیغام ہمارے نام : بلا شبہ موت ایک عظیم حادثہ ہے گھر کے ایک فرد کی موت سے بسا اوقات کتنے ہی امور زندگی درہم برہم ہوجاتے ہیں ،کتنے ہی منصوبے تشنہ تکمیل رہ جاتے ہیں ،کتنے ہی حسین وجمیل خواب پریشان ہوجاتے ہیں، کہیں معصوم بچے یتیم ہوجاتے ہیں ،کہیں بوڑھے والدین بے سہارا ہوجاتے ہیں، کہیں سہاگنیں اپنے