کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 40
وہاں عذابِ قبر یا ثوابِ قبر کی فکر کون کرے گا؟ جہاں تھیٹروں ، فلموں اور حیاسوز ناچ گانوں کا بے ہنگم شوربرپا ہو وہاں موت کی یاد کسے آئے گی؟ جہاں بے حجاب نوجوان دوشیزاؤں کا غیر محرم مردوں سے کھلے عام اختلاط ہو وہاں توبہ و استغفار کی رغبت کسے ملے گی؟ جہاں صبح و شام مجاوروں اور مریدوں کے ہجوم میں بھنگ اور چرس کے دور چل رہے ہوں وہاں سفر آخرت کی بات کون کرے گا؟جہاں دن رات نذرانے وصول کرنے اور دولت دنیا جمع کرنے کا کاروبار عروج پر ہو وہاں فکر آخرت کا وعظ کون سنائے گا؟
یاد رہے اپریل 2001ء میں بابا فرید کے مزار واقع پاک پتن میں عرس کے موقع پر بہشتی دروازے سے گزرنے کے خواہش مند ہجوم میں سے 60 افراد اچانک بھگڈر مچ جانے سے ہلاک ہوگئے ۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ دربار کے سجادہ نشین کو حکومت دربار کی ’’خدمت ‘‘ کے لئے ڈیڑھ لاکھ سالانہ گرانٹ دیتی ہے جبکہ سجادہ نشین بہشتی دروازہ کھولنے سے پہلے انتظامیہ سے کئی گھنٹے بحث فرماتے رہے کہ ان کی گرانٹ ڈیڑھ لاکھ سے بڑھا کر پندرہ لاکھ کی جائے تب وہ دروازہ کھولیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھولنے میں بہت تاخیر ہوگئی اور دروازے کے قریب رش بڑھنے کی وجہ سے یہ حادثہ ہوا۔[1]
قبر پرستی کا شرک آخرت میں انسانوں کی ہلاکت اور بربادی کا باعث توہے ہی، دنیا میں اس کے معاشرتی مفاسد ، اخلاقی بگاڑ اور دیگر زہریلے ثمرات کا اندازہ درج ذیل اخباری خبروں سے لگایا جا سکتا ہے۔
1 ’’ضلع بہاولپور میں خواجہ محکم الدین میرائی کے سالانہ عرس پرآنے والی بہاولپور یونیورسٹی کی دو طالبات کو سجادہ نشین کے بیٹے نے اغوا کر لیا جبکہ ملزم کا باپ سجادہ نشین منشیات فروخت کرتے ہوئے پکڑا گیا۔‘‘[2]
2 ’’رائے ونڈ میں بابا رحمت شاہ کے مزار پر عرس میں ورائٹی پروگرام کے نام پر لگائے گئے سات کیمپوں میں محافل مجرا جاری ہیں، درجنوں نو عمر لڑکیاں فحش ڈانس کرکے تماش بینوں سے داد عیش حاصل کررہی ہیں۔ تماش بین نئے نوٹوں کی گٹھیاں لے کر یہاں پہنچ جاتے ہیں اور رات کے دو بجے تک گھنگروں کی جھنکار پر شرابیوں کا شور سنائی دیتا رہتا ہے۔ سائیکل شوز پروگرام میں نو عمر لڑکے،
[1] تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مجلہ الدعوۃ ، صفر 1422ھ مئی 2001، لاہور پاکستان
[2] روزنامہ خبریں ، لاہور، 15اکتوبر1992ء