کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 39
ساتھ جنت میں داخل ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب ! قبرجائے عبرت، یا جائے تماشہ؟ جیسا کہ ہم اس سے پہلے لکھ آئے ہیں کہ قبر واقعی بڑے خوف اور گھبراہٹ کی جگہ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودیہ بات ارشاد فرمائی’’میں نے قبر سے زیادہ گھبراہٹ والی جگہ کوئی نہیں دیکھی۔‘‘ (ترمذی) ایک جنازے کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے سرہانے تشریف فرماتھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کی ہولناکی کو یاد فرماکر اس قدر روئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسوؤں سے قبر کی مٹی تر ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میرے بھائیو! اس کے لئے کچھ تیاری کرلو۔‘‘ (ترمذی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قبر کے فتنہ سے پناہ مانگی اور امت کو بھی اس سے پناہ مانگنے کی نصیحت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کا یہ نتیجہ تھا کہ قبر کا ذکر آتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آبدیدہ اور غمزدہ ہوجاتے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’تین باتیں مجھے غمزدہ کردیتی ہیں اور میں آبدیدہ ہوجاتا ہوں ۔ پہلی بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جدائی کا غم ، دوسری بات عذاب ِ قبر اور تیسری بات قیامت کا ڈر۔حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ موت اور قبر کو یاد کرکے اس قدر روتے کہ بے ہوش ہوجاتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو قبر کی زیارت کی اجازت ہی صرف اس لئے دی ہے کہ ا س سے آخرت کی یاد آئے گی۔ (ترمذی)مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں ’’قبروں کی زیارت کرو کہ اس میں سامان عبرت ہے۔‘‘ یعنی انسان دنیا کو بھول کر آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی پر غوروفکر کا موقع ملتا ہے۔ دوسروں کی قبریں دیکھ کر اپنی قبر کا خیال آتا ہے۔ عارضی دنیا کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرنی پر پشیمانی اور ندامت کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کی رغبت پیدا ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہاں جو کچھ ہورہا ہے اس کا نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ غور فرمائیے !جہاں عشقیہ اور شرکیہ مضامین پر مشتمل قوالیوں کی مجلسیں لگی ہوں وہاں آخرت کی یاد کسے آئے گی؟ جہاں ڈھول ڈھمکے کی تھاپ پر نوجوان ملنگ اور ملنگنیاں دھمالیں ڈال رہی ہوں وہاں منکر نکیر کا خیال کسے آئے گا؟ جہاں آرائش حسن اور نمائش جسم کی دلدادہ طوائفوں کے مجرے ہورہے ہوں،