کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 37
کئے گئے یہ واقعات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شان میں اتنی بڑی گستاخی ہیں کہ ان پر زمین پھٹ جائے یا آسمان گر پڑے تو تعجب کی بات نہیں۔ ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پاک اور بلند و بالا ہے۔ ان مشرکانہ باتوں سے جو مشرک لوگ کرتے ہیں ۔﴿ سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّتِ عَمَّا یَصِفُوْنَ﴾ ’’پاک ہے تیرا عزت والا رب ، ان باتوں سے جو مشرک لوگ کہتے ہیں۔‘‘ ایک غلط فہمی کا ازالہ: مسلمانوں میں سے ایک گروہ عذاب ِقبر یا ثواب ِقبر کا منکر ہے۔ ان کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جزا اور سزا کا دن تو قیامت کا ہے، اس سے پہلے جزا یا سزا عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے ، لہٰذا قبر میں عذاب یا ثواب نہیں ہو سکتا۔ اس غلط فہمی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ برزخی زندگی ، ہماری موجودہ زندگی سے بالکل مختلف ہے اور آخرت کی زندگی سے بھی بالکل مختلف ہے ، لہٰذا برزخی زندگی کے تمام معاملات کی اصل کیفیت کو موجودہ زندگی میں سمجھنا ہمارے لئے ممکن نہیں، اس موضوع پر ہم نے دیپاچہ کے بعد ضمیمہ کی شکل میں ’’برزخی زندگی کیسی ہے؟‘‘ کے عنوان سے مفصل گفتگو کی ہے ۔اسے پڑھنے کے بعد اس قسم کی بہت سی الجھنیں ان شاء اللہ دور ہوجائیں گی۔ اس غلط فہمی کی دوسری وجہ عذاب ِقبر یا ثواب ِقبر کی نوعیت کی صحیح وضاحت نہ ہونا بھی ہے ۔برزخی زندگی میں عذاب یا ثواب کی صحیح نوعیت کو ہم ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ فرض کیجئے پولیس اہل کار کسی آدمی کو حکام بالا کے احکام پر گرفتار کرتے ہیں ۔حکام بالا ساتھ ہی پولیس کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ یہ آدمی واقعی مجرم پیشہ گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ پولیس اسے عدالت کے باقاعدہ فیصلہ سے قبل کسی قسم کی سزا دینے کی مجاز تو نہیں ہوتی ،لیکن حوالات کے سارے کارکن اس کی مجرمانہ حیثیت سے واقف ہونے کی بنا پر اس سے شدید نفرت کرتے ہیں، ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں، اسے ڈراتے اور دھمکاتے بھی رہتے ہیں کہ ذرا عدالت سے فیصلہ ہونے دو پھر دیکھو ہم تمہارا کیا حشر کرتے ہیں۔ حوالات میں عملاً اس کے ساتھ انتہائی گھٹیا اور ذلت آمیز سلوک کرتے ہیں۔ نہ اسے کرسی پر بیٹھنے کی اجازت دی جاتی ہے نہ چار پائی پر لیٹنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اُدھر سے گزرنے والا حوالات کا ہر کارندہ اسے غضبناک