کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 36
بعد) تجھے عزت بخشی۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تجھے کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے اسے عزت بخشی ہے؟‘‘ حضرت ام العلاء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان پھر اللہ اور کس کو عزت دے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’بے شک عثمان کو موت آگئی اور اللہ کی قسم میں بھی اس کے لئے (اللہ سے) خیر اور بھلائی کی امید رکھتا ہوں ، لیکن اللہ کی قسم میں نہیں جانتا (قیامت کے روز ) میرا کیا حال ہوگا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ (بخاری) یاد رہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو دو دفعہ ہجرت حبشہ اور تیسری دفعہ ہجرت مدینہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کی وفات پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا ’’تم دنیا سے اس طرح رخصت ہوئے کہ تمہارا دامن ذرہ برابر دنیا سے آلودہ نہ ہونے پایا۔‘‘ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں: 1۔کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کس کا کیا مرتبہ ہے؟ 2۔گناہ بخشنے یا نہ بخشنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ 3۔اللہ تعالیٰ کی عظمت ، کبریائی اور جلال کے سامنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی عاجز اور بے بس ہیں۔ قارئین کرام !جیسا کہ آپ کو معلوم ہے دین اسلام کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے۔ دونوں چیزیں ہمیں یہی تعلیم دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کے معاملات پر غالب ہے کسی کے گناہ معاف کرنا یا نہ کرنا صرف اسی کے اختیار میں ہے۔ کسی کو عذاب سے پناہ دینا یا نہ دینا صرف اسی کے اختیار میں ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ساری دنیاکے انبیاء اور فرشتے مل کر بھی اس کے حکم کو نہ بدل سکتے ہیں نہ ٹال سکتے ہیں وہ اپنے تمام فیصلے نافذ کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے ۔ اس کائنات میں صرف وہی ایک ’’عَزِیْزٌ‘‘ یعنی غالب ہے۔ صرف وہی ایک ’’جَبَّارٌ‘‘ یعنی قوت سے اپنے فیصلے نافذ کرنے والا ہے۔ صرف وہی ایک ’’مُتَکَبِّرٌ‘‘ ہے جو تمام مخلوق کے سامنے بڑا ہو کر رہنے والا ہے۔ اس کی ذات اس بات سے بہت ہی بلند و بالا ہے کہ اسے کسی نبی یا ولی کے سامنے سفارشی بنایا جائے۔ یہی تعلیم عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ واقعات سے ملتی ہے ۔ بزرگوں اور ولیوں کے نام سے منسوب کئے گئے واقعات کتاب و سنت کی تعلیمات اور عہد نبوی کے واقعات سے بالکل برعکس ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بزرگوں اور ولیوں کے بارے میں بیان