کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 35
فرماتے رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر یہی کلمات دہرانے لگے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر اللہ اکبر فرمانا شروع کردیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کے ساتھ یہی کلمات دہرانے شروع کر دیئے۔ دعاسے فراغت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے تسبیح اور تکبیر کیوں کہی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’تدفین کے بعد قبر نے سعد کو دبا لیا تھا میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ،تو اللہ تعالیٰ نے قبر کو فراخ فرما دیا۔‘‘ ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی ’’اگر قبر کے دبانے سے کوئی شخص نجات پا سکتا تو وہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہوتے۔‘‘[1]
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی وفات کے واقعہ سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1۔ گناہ معاف کرنے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ایمان کی گواہی تو دی لیکن مغفرت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا فرمائی ۔2۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پڑھائی۔ ستر ہزار فرشتے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔ ان کی روح کے لئے آسمان کے سارے دروازے کھول دیئے گئے میت کو رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے قبر میں اتارا اس کے باوجود قبر نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو دبایا ۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کے معاملات پر غالب ہے ۔ اس کے امر کو اللہ کا رسول ٹال سکے نہ ستر ہزار فرشتے۔ 3۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھاکہ قبر، حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو دبار ہی ہے تو گھبراہٹ کے عالم میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور تقدیس و تکبیر بیان کرنا شروع کردی اور اس وقت تک کرتے رہے جب تک حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو قبر کی تکلیف سے نجات نہ مل گئی۔معلوم ہوا کہ اللہ کے حضور عاجزی و انکساری کے ساتھ منت ، سماجت اور درخواست تو کی جا سکتی ہے ، زبردستی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بات نہیں منوا سکتے۔
2 دوسرا وقعہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا ہے۔ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تو نظام مواخاۃ کے تحت حضرت ام العلاء انصاریہ رضی اللہ عنہا کے گھر ٹھہرے ،فوت ہوئے تو حضرت ام العلاء رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کہا ’’اے ابو سائب ! (حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی کنیت) تجھ پر اللہ کی رحمت ہو میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے (مرنے کے
[1] تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مستدرک حاکم (4981-4983/4)