کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 33
کے مرنے کے بعد جب منکر نکیر نے اس سے سوالات کئے تو اس نے ہر سوال کا جواب ’’عبدالقادر ‘‘ کہتے ہوئے دیا ۔ ‘منکر نکیر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا ’’ یہ بندہ اگرچہ فاسق ہے مگر اسے عبدالقادر سے محبت ہے میں نے اسے بخش دیا۔‘‘[1] اس واقعہ سے سیدھی سادی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اولیاء کرام سے محبت کرنے والا خواہ فاسق ہی کیوں نہ ہو ضرور بخشا جائے گا ۔ یاد رہے کہ اہل علم کے نزدیک فاسق وہ ہے جو کبائر کا مرتکب ہو مثلاً تارک ِ نماز، زانی ، شرابی وغیرہ۔ 4 جب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ جہان فانی سے عالم جاودانی میں تشریف لے گئے تو ایک بزرگ کو خواب میں بتایا ’’ منکر نکیر نے جب مجھ سے مَنْ رَبُّکَ ؟ یعنی’’ تیرا رب کون ہے؟‘‘ پوچھا تو میں نے کہا ’’اسلامی طریقہ یہ ہے کہ پہلے سلام اور مصافحہ کرتے ہیں۔‘‘ چنانچہ فرشتوں نے نادم ہو کر مصافحہ کیا تو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لئے اور کہا کہ تخلیق آدم کے وقت تم نے ﴿اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُفْسِدُ فِیْہَا﴾ ’’ کیا تو پیدا کرتا ہے اسے جو زمین میں فساد برپا کرے؟‘‘ کہہ کراپنے علم کو اللہ تعالیٰ کے علم سے زیادہ سمجھنے کی گستاخی کیوں کی نیز تمام بنی آدم کی طرف فساد اور خون ریزی کی نسبت کیوں کی؟ تم میرے ان سوالوں کا جواب دو گے تو چھوڑوں گا ورنہ نہیں۔‘‘ منکر نکیر ہکا بکا ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی مگر اس دلاور ، یکتائے میدان جبروت اور غوث بحر لاہوت کے سامنے قوت ملکوتی کیا کام آتی، مجبوراً فرشتوں نے عرض کیا ’’حضور ! یہ بات سارے فرشتوں نے کی تھی لہٰذاآپ ہمیں چھوڑیں تاکہ باقی فرشتوں سے پوچھ کر جواب دیں۔‘‘ حضرت غوث الثقلین نے ایک فرشتے کو چھوڑا دوسرے کو پکڑ رکھا، فرشتے نے جا کر سارا حال بیان کیا تو سب فرشتے اس سوال کے جواب سے عاجز رہ گئے۔ تب باری تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ میرے محبوب کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی خطا معاف کراؤ، جب تک وہ معاف نہ کرے گا رہائی نہ ہوگی ۔ چنانچہ تمام فرشتے محبوب سبحانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر خواہ ہوئے، حضرت صمدیت (یعنی اللہ تعالیٰ) کی طرف سے بھی شفاعت کا اشارہ ہوا ، اس وقت حضرت غوث اعظم نے جناب باری تعالیٰ میں عرض کی ’’اے خالق کل ! رب اکبر ! اپنے رحم و کرم سے میرے
[1] سیرت غوث ، صفحہ214