کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 32
عزرائیل سے کہا ’’ٹھہر ! ہم اپنی لڑکی تمہارے ساتھ روانہ کردیتے ہیں۔‘‘ چنانچہ گھر آئے، دروازے کی طرف منہ کرکے فرمایا ’’عزرائیل ! یہ لڑکی حاضر ہے ،لڑکی اسی وقت زمین پر گری اور مر گئی ۔ بادشاہ کی لڑکی اچھی ہوگئی۔[1]
اس واقعہ سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1۔حضرت عزرائیل اللہ تعالیٰ کے علاوہ اولیاء کرام کے احکام پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ 2۔ زندگی اور موت پر اولیاء کرام کا بھی اختیار ہے۔3۔ اولیاء کرام اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو بدلنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں۔
2 حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ہمسایوں میں سے کسی نے انتقال کیا آپ جنازے کے ساتھ گئے۔ لوگ دفن کرکے واپس پلٹ گئے اور خواجہ وہاں ٹھہر گئے۔ شیخ الاسلام قطب الدین فرماتے ہیں میں آپ کے ساتھ تھا، میں نے دیکھا کہ دم بدم آپ کا رنگ متغیر ہوا پھر اسی وقت برقرار ہوگیا۔ جب آپ وہاں سے کھڑے ہوئے تو فرمایا ’’الحمد للہ ! بیعت بڑی اچھی چیز ہے۔‘‘ شیخ الاسلام قطب الدین نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا ’’جب لوگ اس کو دفن کرکے چلے گئے تو میں نے دیکھا کہ عذاب کے فرشتے آئے اور چاہا کہ اس کو عذاب کریں اسی وقت شیخ عثمان ہارونی (خواجہ صاحب کے فوت شدہ پیر) حاضر ہوئے اور(فرشتوں سے) کہا یہ شخص میرے مریدوں میں سے ہے۔ ادھر فرشتوں کو فرمان ہوا(کہو) ’’یہ تمہارے خلاف تھا۔‘‘خواجہ نے فرمایا ’’بے شک خلاف تھا لیکن اپنے آپ کو اس فقیر کے پلے باند ھ رکھا تھا میں نہیں چاہتا کہ اس پر عذاب کیا جائے۔‘‘ فرمان ہوا ’’اے فرشتو ! شیخ کے مرید سے ہاتھ اٹھاؤ میں نے اس کو بخش دیا۔‘‘[2]
اس واقعہ سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1۔عذاب دینے یا نہ دینے کا اختیار اولیاء کرام کے پاس بھی ہے۔2۔ گناہ بخشنے کا اختیار بھی اولیاء کرام کے پاس ہے۔3۔ اولیاء کرام کے ہاتھ پر بیعت کر لینا ہی سارے گناہ بخشوانے کے لئے کافی ہے۔
3 غوث پاک کے زمانہ میں ایک شخص بہت ہی گنہگار تھا ،لیکن اسے غوث پاک سے محبت ضرورتھی اس
[1] مرشد کامل ، ترجمہ حدائق الاخبار از صادق فرخانی ، ص 23
[2] راحۃ القلوب ، ملفوظات خواجہ فرید الدین شکر گنج از نظام الدین اولیاء ، ص 132