کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 30
والے ہیں۔ ‘‘(سورہ مومنون، آیت 9) نماز کی اہمیت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کی آخری وصیت نماز ہی کے بارے میں تھی کہ…’’ لوگو ! نماز کی حفاظت کرنا اور اپنے غلاموں کا خیال رکھنا۔‘‘ (ابن ماجہ) برزخی زندگی میں نماز کی فضیلت کا ایک بڑا ہی منفرد اور اہم پہلو ہمارے سامنے آتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جب منکر نکیر مومن کو قبر میں اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں تو اسے سورج غروب ہوتا دکھایا جاتا ہے اور اس کے بعد منکر نکیر اور مومن آدمی کے درمیان درج ذیل مکالمہ ہوتا ہے: منکر نکیر : جو شخص تمہارے درمیان بھیجے گئے تھے ان کے بارے میں تمہارا عقیدہ کیا ہے؟ مومن : ذرا ہٹو ،(پہلے) مجھے نماز پڑھنے دو۔ منکر نکیر : نماز پھر پڑھ لینا ، پہلے ہمارے سوالوں کا جواب دو۔ مومن : اس شخص (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں تم مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ منکر نکیر: جو کچھ ہم پوچھ رہے ہیں اس کا جواب دو۔ مومن : ذرا ہٹو، (پہلے) مجھے نماز پڑھنے دو۔ منکر نکیر: نماز پھر پڑھ لینا ، پہلے ہمارے سوال کا جواب دو۔ مومن : تم مجھ سے (بار بار) کس چیز کے بارے میں پوچھ رہے ہو؟ منکر نکیر : ہمیں بتاؤ، جو شخص تمہارے درمیان تھے (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ا ن کے بارے میں تمہارا عقیدہ کیا تھا ، ان کے بارے میں تمہاری شہادت کیسی ہے؟ مومن : میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ۔ منکر نکیر: تم نے اسی عقیدہ پر زندگی گزاری ، اسی پر مرے اور ان شاء اللہ اسی پر (قیامت کے روز)اٹھو گے ۔ [1] منکر نکیر اور مومن آدمی کی باہمی گفتگو کے الفاظ غور سے پڑھئے اور پھر اندازہ لگائیے کہ ایک طرف نامانوس غیر انسانی مخلوق، ڈراؤنی شکلیں، کڑکتی گرجتی آواز، تنہائی ، تاریکی، بند جگہ اور دوسری طرف نمازی کی یہ شان کہ گھبراہٹ کانام و نشان تک نہیں، گفتگومیں اطمینان اور وقار اس غضب کا جیسے کسی آقا کے
[1] مستدرک حاکم 1443/1