کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 25
اہل علم کی تو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں تعریف فرمائی ہے:
﴿اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓوأُ﴾
’’بے شک اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے وہی اس سے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔‘‘ (سورہ فاطر ، آیت 28)
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾
’’اے محمد ! ان سے پوچھو کیا علم والے اور بے علم برابر ہوسکتے ہیں؟ ‘‘(سورہ زمر ، آیت 9)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے وہ انسانوں کے لئے ہلاکت کا باعث ہوگی یا نجات کا؟
بعض لوگ عمر کی وجہ سے قرآن مجید پڑھنے یا علم دین سیکھنے میں شرم اور جھجک محسوس کرتے ہیں حالانکہ یہ بھی محض ایک منفی اندازِ فکر ہے ۔دنیا کے معاملات میں ہر آدمی مرتے دم تک جدوجہد کرتا رہتا ہے اور کبھی جھجک یا عیب محسوس نہیں کرتا پھر دین کے بارے میں ایسی فکر اور سوچ کیسے درست ہو سکتی ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی پچاس سال کی عمر میں مسلمان ہوا، کوئی ساٹھ سال کی عمر میں اور اس کے بعد قرآن مجید پڑھا، بعضوں نے زبانی یاد کیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے
’’علم دین سیکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔‘‘ (طبرانی)
اور اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کی کوئی قید مقرر نہیں فرمائی، لہٰذا اللہ تعالیٰ جب بھی سمجھ عطافرمائیں بلا جھجک اور بلا تاخیر قرآن مجید پڑھنا چاہئے۔
قرآن مجید سے دوری کی ایک وجہ مختلف قسم کے پنجسورے اور دیگر کتب و وظائف ہیں جنہیں اکثر لوگ اس طرح روز مرہ کا معمول بنا لیتے ہیں جس طرح قرآن مجید کی تلاوت کو روز مرہ کا معمول بنانا چاہئے اور اس کے بعد قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ قرآن مجید کی بعض سورتوں یا آیات کی فضیلت بالکل بجا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انہیں سورتوں کو کافی سمجھ کر باقی قرآن مجید کو ترک