کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 24
ہے۔ اسے پڑھنا اور سمجھنا صرف اہل علم کاکام ہے ،ہر آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہوتی تو قبر میں سوالوں کے جواب میں ناکام ہونے والے ہر آدمی پر یہ فرد جرم عائد کیوں کی جاتی لاَ دَرَیْتَ وَ لاَ تَلَیْتَ ’’ تو نے (قرآن)نہ جانا نہ پڑھا؟‘‘اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی اس غلط فہمی کی تردید فرمائی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَلَقْدَ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ،﴾ ’’نصیحت حاصل کرنے کے لئے ہم نے اس قرآن کو آسان بنایا ہے پھر ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔‘‘ (سورہ قمر ، آیت 17) ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں بعض مقامات واقعی ایسے ہیں جنہیں از خود سمجھنا مشکل ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس وجہ سے پورے قرآن مجید کو نہ پڑھنے کا طرز عمل درست کہلا سکتا ہے ؟ اگر کسی طالب علم کو کیمسٹری یا فزکس کے بعض فارمولے سمجھنے میں دقت پیش آرہی ہو تو کبھی اس کے والدین یہ نہیں کہتے ’’بیٹا اسے پڑھنا چھوڑ دو، یہ تمہارے بس کی بات نہیں۔‘‘ بلکہ طالب علم کو مہنگی سے مہنگی ٹیوش لگوا کر دی جاتی ہے تاکہ بچہ امتحان میں کامیاب ہو۔دنیا کے معاملہ میں ہماری عقل یہ کام کرتی ہے لیکن دین کے معاملے میں ہم آخر اتنے نادان اور بدو کیوں بن جاتے ہیں کہ قرآن مجید میں اگر کوئی مشکل مقام آجائے تو اسے سمجھنے کے بجائے ترک کرنے کافوراً فیصلہ کر لیاجائے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ قرآن مجید کا پوری توجہ سے مطالعہ کیا جائے اور اگر کہیں سمجھ نہ آئے تو کسی عالم دین سے رہنمائی حاصل کی جائے اور قبر کے امتحان میں کامیاب ہونے کی ہر ممکن کوشش کی جائے نہ یہ کہ پہلے روز ہی سے نہ پڑھنے کا فیصلہ کرکے امتحان میں ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر لی جائے ۔ قرآن مجید سے دوری کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ زیادہ علم حاصل کرنے کو باعث ہلاکت سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ابلیس بھی بہت بڑا عالم تھااور اپنے علم کی وجہ سے ہی گمراہ ہوا تھا ، لہٰذا جتناعلم ہے اسی پر عمل کرلینا کافی ہے۔ یہ غلط فہمی بھی سراسر وسوسہ ہے ۔ابلیس اپنے علم کی وجہ سے نہیں بلکہ تکبر کی وجہ سے ہلاک ہوا۔(ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، آیت نمبر34)