کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 22
(یعنی عذاب) میں مبتلا ہوگا۔ ‘‘(سورہ طٰہٰ ، آیت 123)
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾
’’جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا اس کے لئے نہ خوف ہو گا نہ وہ غم کھائیں گے۔ ‘‘(سورۃ البقرہ ، آیت 38)
دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ قرآن مجید نہیں پڑھیں گے اور اس پر عمل نہیں کریں گے وہ یقینا گمراہ ہوں گے نیز آخرت کے عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے اور اس عذاب کی ابتداء قبر سے ہی ہوجائے گی ۔اس اعتبار سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس زندگی میں ہماری سب سے زیادہ محنت ، سب سے زیادہ وقت ، سب سے زیادہ صلاحیتیں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے پر صرف ہوتیں ۔ قرآن مجید کی تلاوت ہمارے روز مرہ معمول کا مستقل حصہ ہوتی۔ قرآن مجید کی سماعت ہمارے دل و دماغ کے سکون کا باعث بنتی۔ صبح و شام ہمارے گھروں سے خوش الحان قراء کی آوازیں بلند ہوتیں ۔ ہمارے بچے بلوغت سے قبل قرآن مجید سے اس قدر مانوس ہوتے کہ عمر بھر اس کی تلاوت ، تفہیم اور تدبر کو حرز جان بناتے لیکن افسوس کہ سب سے زیادہ بے توجہی اور بے اعتنائی اسی قران مجید سے برتی جارہی ہے جو دنیا ، برزخ اور آخرت میں ہماری کامیابی کا ضامن ہے۔
یہ حقیقت کس قدر المناک ہے کہ ہمیں روزانہ اخبار پرھنے کے لئے گھنٹہ دو گھنٹے میسر آجاتے ہیں لیکن قرآن مجید کی تعلیم ، تفہیم یا تدبر کے لئے پندرہ بیس منٹ بھی میسر نہیں آتے۔ وطن عزیز میں نوے (90) فیصد گھرانے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر عمر عزیز کے کئی کئی قیمتی گھنٹے برباد کردیتے ہیں لیکن اپنے اہل و عیال کے ساتھ بیٹھ کر قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کے لئے انہیں چند لمحے بھی میسر نہیں آتے ۔ والدین کے ہاں بچہ چار پانچ سال کا ہوجائے تو اس کی دنیا وی تعلیم و تربیت کے لئے ماں باپ کو فکر ہونے لگتی ہے کہ اسے کون سے سکول میں داخل کرنا ہے ،کیا پڑھانا ہے ،کیا بنانا ہے ،لیکن عمر بھر قرآن مجید کی تعلیم کی فکر لاحق نہیں ہوتی۔ دنیاوی علوم کے حصول پر والدین پانی کی طرح دولت بہاتے ہیں لیکن قرآنی تعلیم پر اس کا عشر عشیر خرچ کرنا بھی والدین پر گراں گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چوبیس بچیس برس کی عمر میں ہمارے طلباء