کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 18
تقاضوں کو پورا کیا ہو۔ یہی معاملہ قبر میں سوالوں کے جواب کا ہے ۔قبر میں بھی مذکورہ سوالوں کے صحیح جواب وہی دے پائے گا جس نے اپنی ساری زندگی ان سوالوں کے جواب کے مطابق بسر کی ہوگی۔ مَنْ رَبُّکَ؟ کے جواب میں اَشْہَدُ اَنْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ اس شخص کی زبان سے نکلے گا جس نے ساری زندگی واقعی اللہ کو ہی اپنا الٰہ اور معبود سمجھا ، صرف ایک اللہ سے ہی اپنی لو لگائے رکھی، ایک اللہ کو ہی اپنا داتا اور حاجت روا سمجھا ایک اللہ کو ہی اپنا غوث اور مشکل کشا سمجھا ، ایک اللہ کو ہی اپنی قسمت اپنی زندگی اور اپنی موت کا مالک سمجھا ، اسی کے نام کی نذرونیاز دی، اسی کے نام چڑھاوے اور منتیں مانیں، اسی کے نام کی نماز پڑھی اور روزہ رکھا ، اسی کے نام کا صدقہ خیرات دیا،صرف اسی کا خوف دل میں رکھا، لیکن جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو بھی اپنی قسمت ، زندگی اور موت کے معاملات میں شریک سمجھا ، اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی اپنا داتا اور حاجت روا مانا ، دوسروں کو بھی اپنا غوث اور مشکل کشا جانا ، اللہ کے ساتھ دوسروں کے نام کی نذریں نیازیں بھی دیں دوسروں کے نام کے چڑھاوے اور منتیں بھی مانیں،دوسروں کے نام کے صدقہ اور خیرات بھی دیئے اس کی زبان سے لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کیسے نکلے گا؟
ایسا ہی معاملہ دوسرے سوال کا ہوگا ۔ مَنْ نَبِیُّکَ؟ کا جواب ویسے توبہت مختصر اور آسان ہے یعنی اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ لیکن اس مختصر اور آسان جواب کا تعلق بھی انسان کی ساری عملی زندگی کے ساتھ ہے جس شخص نے نماز ، روزہ ، صدقہ اور خیرات سے لے کر اٹھنے بیٹھنے ، سونے جاگنے اور کھانے پینے تک، تجارتی لین دین سے لے کر شادی بیاہ اور مرنے جینے تک سارے معاملات میں صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی پیروی اور اتباع کی ہوگی، انہیں ہی اپنا راہنما اور راہبر مانا ہوگا ، انہیں ہی اپنا امام اور پیشوا مانا ہوگا، انہیں کی ذات کو اسوہ اور نمونہ بنایا ہوگا اور پھر انہی کو اپنے ماں با7پ ، اہل و عیال اور دیگر تمام شخصیتوں سے بڑھ کر محبوب جانا ہوگا، اسی کی زبان سے اس سوال کا صحیح جواب نکلے گا اور جس نے قدم قدم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مقابلے میں اپنے ائمہ کے اقوال کو ترجیح دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مقابلے میں اپنے پیر و مرشد کے ارشادات کو ترجیح دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں اپنے ’’علماء‘‘ کی رائج کردہ بدعات کو ترجیح دی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مقابلے میں اپنے بزرگوں کی تعلیمات کو ترجیح