کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 17
ہیں۔ ‘‘(سورہ انبیاء ، آیت نمبر 1)
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمارے حال پر رحم فرمائے اور موت سے پہلے پہلے ہمیں قبر کی کٹھن گھاٹی کے لئے کچھ تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!
قبر میں تین سوال:
قبر میں منکر نکیر تین سوال کرتے ہیں :
1۔ مَنْ رَبُّکَ تیرا رب کون ہے؟ 2۔ مَنْ نَبِیُّکَ تیرا نبی کون ہے؟
3۔مَا دِیْنُکَ تیرا دین کیا ہے؟
بظاہر ان تین سوالوں کا جواب بڑا مختصر اور آسان ہے ۔ یعنی میرا رب اللہ ہے، میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور میرا دین اسلام ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تین سوال اس قدر جامع ہیں کہ انسان کی ساری زندگی کا خلاصہ انہی تین سوالوں کے جواب میں سمٹ آتا ہے ۔قبر میں ان سوالوں کا جواب صرف وہی شخص دے سکے گا جس کی ساری زندگی ان سوالوں کے جواب کے مطابق عمل کرتے گزری ہوگی، علم و فضل کی بڑائی یا عقل وخرد کی برتری انسان کے کسی کام نہیں آئے گی۔
40۔1930ء کے عشرے کی بات ہے محتر م والد حافظ محمد ادریس کیلانی رحمہ اللہ جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں زیر تعلیم تھے۔ وہ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ گاؤں سے شہر (گوجرانوالہ) آتے ہوئے ہمارا گزر گوندلانوالہ اڈہ سے ہوتا جہاں ہم ایک آدمی کو ہمیشہ گھاس بیچتے دیکھتے۔ جب کبھی ہمارا گزر ادھر سے ہوتا تو وہ آدمی مسلسل یہی آواز لگا رہا ہوتا ’’دو پیسے گٹھا ، دو پیسے گٹھا‘‘اس آدمی کی ساری زندگی اسی طرح گھاس فروخت کرتے گزر گئی ،نہ نماز ، نہ روزہ، نہ قرآن نہ اللہ نہ اللہ کا رسول… جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس کے اعزہ نے قریب بیٹھ کر لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پڑھنا شروع کیا تاکہ اس کی زبان پر بھی یہ کلمہ آجائے لیکن افسوس ، موت کے وقت بھی اس کی زبان سے وہی کلمات نکلتے رہے جو ساری زندگی وہ کہتا رہا ’’دو پیسے گٹھا ، دو پیسے گٹھا‘‘ … اور انہی الفاظ کے ساتھ ہی اس کی جان نکل گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ موت کا وقت … انسان کی ساری زندگی کا حاصل لمحہ ہوتا ہے… مرتے وقت لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ صرف اسی خوش نصیب کی زبان سے نکلتا ہے جس نے عمر بھر خلوص دل سے لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے