کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 16
میں فتنہ دجال کی طرح آزمائے جاؤگے ۔‘‘صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ زار و قطار رونے لگے۔( نسائی)امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قبر کی یاد آنے پر اس قدرروتے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہوجاتی۔ قبر آخرت کی منازل میں سے سب سے پہلی منزل ہے جس نے اس سے نجات پالی اس کے لئے اگلی منازل بھی آسان ہوں گی اور جسے اس منزل میں نجات نہ ملی اس کے لئے اگلی منازل اس سے کہیں زیادہ سخت ہوں گی۔ (ترمذی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ قبر اور آخرت کو یاد کرکے اس قدرر وتے کہ چہرہ پر دوسیاہ لکیریں پڑ گئیں تھیں۔ (بیہقی) حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے موت اور برزخ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ سنا تو خواہش کرنے لگے ’’کاش !میں ایک درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا ۔‘‘(ابن ماجہ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی موت کا وقت قریب آیا تو رونے لگے ۔ لوگوں نے پوچھا ’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کیا دنیا چھوڑنے کی وجہ سے رو رہے ہو؟‘‘ فرمانے لگے ’’نہیں ! بلکہ طویل سفر اور قلیل زادِ سفر کی وجہ سے رو رہا ہوں ۔ میں نے ایسے ٹیلے پر شام کی ہے جس سے آگے جنت ہے یا جہنم اور مجھے معلوم نہیں میری منزل کون سی ہے؟‘‘ (کتاب الزہد) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر موت اور قبر کا خوف کس قدر طاری رہتااس کا اندازہ ان کی مناجات کے اس ایک شعر سے لگایا جا سکتا ہے : کَیْفَ حَالِیْ یَا اِلٰہِیْ لَیْسَ لِیْ خَیْرُ الْعَمَلِ سُوْئُ اَعْمَالٍ کَثِیْرُ زَادَ طَاعَاتِیْ قَلِیْلٌ ’’یا اللہ ! میرا حال کیا ہوگا، میرے پاس ایک بھی نیک عمل نہیں جبکہ برے اعمال بہت زیادہ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی پونجی بہت ہی قلیل ہے۔‘‘ قبر کی خوفناک گھاٹی سے ہمارے اسلاف جس قدر خوفزدہ رہتے تھے آج ہم اتنے ہی اس سے بے خوف اور غافل ہو چکے ہیں ۔ دنیا کی رنگینیوں اور دلفریبیوں میں ہم اس قدر کھو چکے ہیں کہ بھولے سے کبھی قبر کا خیال نہیں آتا۔ ہماری اس غفلت پر قرآن مجید کا یہ تبصرہ کس قدر سچ ثابت ہور ہا ہے: ﴿اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَ ہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ،﴾ ’’لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا ہے لیکن ان کا حال یہ ہے کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے