کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 14
’’کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب وہ موت کی جانکنی میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں لاؤ نکالو اپنی جان، آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں رسوا کن عذاب دیا جائے گا جو تم ناحق اللہ تعالی کے بارے میں کہا کرتے تھے ۔ ‘‘(سورہ انعام ، آیت 93) اس وقت کافر کی روح سے اس قدر غلیظ بدبوآتی ہے جس طرح کسی گلے سڑے مردار سے انتہائی مکروہ بدبو آتی ہے ۔فرشتے جب اسے آسمان کی طرف لے کر جانے لگتے ہیں تو آسمان کے فرشتے وہیں سے اس کی بدبو محسوس کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ’’کوئی خبیث روح آسمانوں کی طرف لائی جارہی ہے۔‘‘ چنانچہ جب موت کے فرشتے کافر کی بدبودار روح لے کر آسمان اول پر پہنچتے ہیں تو دستک دینے پر پوچھا جاتا ہے ’’یہ کون ہے؟‘‘ جواب میں موت کے فرشتے کہتے ہیں ’’یہ فلاں ابن فلاں ہے۔‘‘ آسمان کے فرشتے جواب دیتے ہیں ’’اس خبیث جسم کی خبیث روح کے لئے کوئی مرحبا نہیں۔ اس کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔اسے ذلیل کرکے واپس زمین پر بھیج دو ۔‘‘ چنانچہ فرشتے اسے آسمان اول سے سے ہی زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ ادھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ اس کانام سجین (یعنی کافروں کی فہرست) میں لکھ دو۔ اس کے بعد اس کی روح سوال و جواب کے لئے دوبارہ اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔ قبر میں منکر نکیر جب کافر کے پاس آتے ہیں تو وہ سخت خوفزدہ اور گھبرایا ہوا ہوتا ہے۔ منکر اورنکیر پوچھتے ہیں مَنْ رَبُّکَ ؟ مَنْ نَبِیُّکَ ؟ ماَ دِیْنُکَ ؟ کافر جواب میں کہتا ہے ہَا ہَا لاَ اَدْرِیْ’’ ہائے افسوس میں نہیں جانتا۔‘‘ منافق آدمی کہتا ہے ’’میں نے جو کچھ لوگوں کو کہتے سنا بس وہی میں بھی کہتا ہوں۔‘‘ منافق کے اس جواب کے بعد جنت کی طرف دروازہ کھول کر اسے جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے اور اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ ہے وہ جنت جس سے اللہ نے تمہیں تمہارے نفاق کی وجہ سے محروم کردیا ہے۔ پھر اس کے لئے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دیاجاتا ہے جس سے اسے آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی اسے جہنم میں اس کی ’’قیام گاہ‘‘ بھی دکھائی جاتی ہے۔ تب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا ہے ’’اسے آگ کا لباس پہنا دو اور اس کے لئے آگ کا بستر بچھا دو۔‘‘ اندھے اور بہرے فرشتے اس پر مسلط کردیئے جاتے ہیں جو اسے لوہے کے گرزوں سے مارتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’ گرز