کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 13
اس وقت مومن کو جنت میں اس کا گھر بھی دکھایا جاتا ہے۔ اس کی قبر سترہاتھ ( یا حد نگاہ تک) فراخ کردی جاتی ہے اور چودھویں کے چاند جیسی چاندنی سے منور کردی جاتی ہے ۔ جنت کا خوشبودار لباس اسے پہنا دیا جاتا ہے ۔جنت کا خوشبودار ، آرام دہ ، نرم و نازک بستر اسے مہیا کردیا جاتا ہے ۔ قبر میں مومن آدمی کے پاس ایک خوبصورت چہرے والا ، خوبصورت اور خوشبودار لباس پہنے ایک آدمی آتا ہے۔ مومن اسے پوچھتا ہے ۔’’تو کون ہے؟‘‘ وہ کہتا ہے’’ تیرے نیک اعمال ہوں اور آخرت کی زندگی میں تجھے آرام اور انعام کی بشارت دیتا ہوں ۔‘‘ تب مومن آدمی دعا کرتا ہے ’’اے میرے رب !قیامت جلد قائم فرما تاکہ میں اپنے اہل و عیال سے جلدی مل سکوں۔‘‘ بعض احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ مومن آدمی کہتا ہے ’’ میں اپنے اہل و عیال کے پاس واپس جانا چاہتا ہوں تاکہ انہیں اپنے نیک انجام سے آگاہ کرسکوں۔ ‘‘جواب میں فرشتے کہتے ہیں ’’اچھا اب تم دلہن کی طرح آرام سے سوجاؤ۔‘‘ (یعنی واپس جانا تو ممکن نہیں) چنانچہ مومن آدمی سوجاتا ہے حتی کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے اس کی قبر سے اٹھائیں گے ۔یہاں سے سفر آخرت کا اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس کی تفصیل ان شاء اللہ اگلی کتاب میں دی جائے گی۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اس کی روح قبض کرنے کے لئے انتہائی خوفناک سیاہ چہرے والے فرشتے ٹاٹ کا بدبودار کفن ساتھ لے کر آتے ہیں اور آتے ہی اسے ’’اے خبیث روح ! اے مغضوب روح !‘‘ کے الفاظ سے خطاب کرتے ہیں۔ اسے اللہ کے غضب اور جہنم کے عذابوں کی ’’بشارت‘‘ دیتے ہیں۔ کافر کی روح خوف اور ڈر کی وجہ سے جسم سے نکلنا نہیں چاہتی ۔ فرشتے اسے اس طرح کھینچ کر نکالتے ہیں جس طرح کانٹے دار لوہے کی سلاخ گیلی اون سے زبردستی کھینچ کر نکالی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کیفیت کا ذکر ان لفاظ میں کیا گیا ہے ﴿وَالنّٰزِغٰتِ غَرْقًا﴾’’ قسم ہے ان فرشتوں کی جو (کافروں کی جان) جسم میں ڈوب کر نکالتے ہیں۔‘‘ (سورۃ النازعات ، آیت نمبر 1)یعنی وہ نکلنا نہیں چاہتی مگر فرشتے اسے زبردستی نکالتے ہیں ۔ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَلَوْ تَرَی اِذِا الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰئِکَۃُ بَاسِطُوْا اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ کُنْتُمْ عَنْ آیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ،﴾