کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 11
زندگی کے آخری لمحات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک میں لکنت آگئی تھی۔ (ابن ماجہ) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ (فاتح مصر) اپنی زندگی میں اکثر کہا کرتے تھے ۔’’مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جن کے حواس موت کے وقت درست ہوتے ہیں مگر موت کی حقیقت بیان نہیں کرتے۔‘‘ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جب خود موت کے کنارے پہنچے تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں ان کی بات یاد دلائی۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے ٹھنڈی سانس لی اور کہنے لگے’’ موت کی کیفیت ناقابل بیان ہے بس اتنا بتاسکتا ہوں کہ مجھے ایسا معلوم ہورہا ہے گویا آسمان زمین پر ٹوٹ پڑا ہے اور میں دونوں کے درمیان پس رہا ہوں ،میری گردن پر جیسے کوئی پہاڑ رکھا ہوا ہے پیٹ میں کھجور کے کانٹے بھرے ہوئے ہیں اور ایسے معلوم ہورہا ہے جیسے میری سانس سوئی کے ناکے سے گزر رہی ہے۔ ‘‘ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ’’موت کا لمحہ دنیا و آخرت کی تمام ہولناکیوں سے زیادہ ہولناک ہے یہ آروں کے چیرنے سے زیادہ اذیت ناک ، قینچیوں کے کانٹنے سے زیادہ سخت اور ہنڈیوں کے ابالنے سے زیادہ تکلیف دہ ہے اگر مردہ زندہ ہو کر لوگوں کو موت کی سختی سے آگاہ کردے تو لوگوں کا آرام اور نیند ختم ہوجائے۔ ‘‘ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ یہ دعافرمایا کرتے تھے (( اَللّٰہُمِّ ہَوِّنْ عَلَی الْمَوْتِ)) ’’یا اللہ ! مجھ پر موت کی سختی آسان فرمانا۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن اور کافرکی موت کی الگ الگ کیفیت بیان فرمائی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو سورج کی طرح روشن چہروں والے فرشتے جنت سے معطر سفید ریشمی کفن اپنے ساتھ لاتے ہیں، آکر مومن آدمی کو السلام علیکم کہتے ہیں ۔ملک الموت روح قبض کرنے سے پہلے اسے خوشخبری دیتے ہیں ’’ اے پاک روح ! خوش ہو جا تیرے لئے اللہ کی رحمتیں اور جنت کی نعمتیں ہیں۔‘‘ یہ خوش خبری سن کر مومن آدمی کے دل میں اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کی زبردست خواہش پیدا ہوتی ہے اور مومن آدمی کی روح جسم سے اس طرح نکل آتی ہے جس طرح مشکیزہ کا منہ کھول دینے سے پانی بہہ نکلتا ہے ۔فرشتے روح قبض کرنے کے بعد اسے خوشبودار سفید ریشمی کفن میں لپیٹ لیتے ہیں اور آسمان کی طرف لے جاتے ہیں۔اس وقت مومن آدمی کی روح سے اس قدر تیز مِسک کی سی خوشبو آتی ہے کہ آسمان