کتاب: قبر کا بیان - صفحہ 10
﴿وَجَائَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾
’’ اور موت کی سختی حق لے کر آ پہنچی ۔ ‘‘(سورہ ق ٓ، آیت19)
حق سے مراد عالم برزخ کے حقائق اور سچائیاں ہیں۔ فرشتے نظر آجاتے ہیں۔ عذاب یا ثواب کا یقین ہوجاتا ہے ۔
موت کی سختی اور شدت کا ذکر کرتے ہوئے سورہ قیامہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿کَلاَّ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ وَ قِیْلَ مَنْ رَاقٍ، وَّ ظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ ، وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ،﴾
’’جب جان حلق تک پہنچتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ؟ آدمی یہ سمجھتا ہے کہ (اب دنیا سے) جدائی کا وقت آگیا ہے اس وقت پنڈلی پنڈلی کے ساتھ مل جاتی ہے۔‘‘ (سورہ قیامہ ، آیت 26 تا 29)
پنڈلی سے پنڈلی مل جانے کا مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت پے در پے تکلیفیں آتی ہیں تب جان نکلتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد مبارک ہے:
’’موت کی تکلیف بڑی شدید ہے۔‘‘ (احمد)
دوسری حدیث میں ارشاد مبارک ہے ’’لذتوں کو مٹا دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔‘‘ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مرض میں وفات پائی اس میں آپ کے اضطراب اور بے چینی کا یہ عالم تھا کہ پانی کا پیالہ ساتھ رکھا تھا جس میں بار بار ہاتھ مبارک ڈالتے اور چہرہ پر ملتے اپنی چادر کبھی چہرہ مبارک پر ڈالتے اور کبھی ہٹا لیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب موت کی غشی طاری ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھتے اور فرماتے جاتے(( سُبْحَانَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم نَّ لِلْمَوْتِ لَسَکَرَاتٌ))’’ سبحان اللہ ! موت کے لئے بڑی سختیاں ہیں ۔‘‘(بخاری)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی تکلیف دیکھنے کے بعد اب میں کسی کے لئے موت کی سختی کو برا نہیں سمجھتی۔(بخاری)