کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 37
سال ہے اور تقریباً پندرہ سال پہلے میں صرف اپنی تنخواہ پر گزارا کرتا تھا، لیکن آج میں دو ملین کا مالک ہوں اور دن بدن مادی اعتبار سے ترقی ہی کر رہا ہوں اور اس کا سبب جس نے مجھے اغنیاء کے صف میں لا کھڑا کیا ہے بلکہ یہ پیغام ہر اس بھائی کے لیے ہے جس کے پاس اس کی کنواری بہنیں ہیں ۔
میرے ابو کا ایک کار حادثہ میں انتقال ہوگیا۔ میں شادی شدہ تھا اور ایک سکول میں میں ٹیچر تھا، میری مالی حالت تو اچھی نہیں تھی لیکن اللہ نے مجھے نیک بیوی سے نوازا تھا جو ایک دن کہتی ہے، اے فلاں کے ابو تمہاری بہنیں تمہارے پاس امانت ہیں ، کوئی نیک اور اچھے لڑکے دیکھ کر شادی کر دو اور ان کی بھی کفالت اسی طرح سے کرو جس طرح ہم سب کی کرتے ہو ۔ یہ کس طرح مناسب ہے کہ ہم سب کا کیا خیال رکھو اور ہم پر خرچ کرو اور ان کو بھول جاؤ، بات صرف اتنی ہی نہیں تھی کہ میری بیوی مجھے ابھارتی تھی بلکہ وہ اپنے خاص مال سے میری مدد بھی کرتی تھی، تاکہ میں اپنی بہنوں کی مدد کر سکوں ۔ چنانچہ میں نے اپنی بڑی بہن کی شادی ۲۱ سال کی عمر میں کر دی اور وہ اس وقت یونیورسٹی میں ماسٹر کر رہی ہے، پھر دوسری بہن کی ۱۹سال کی عمر میں ایک قاضی سے شادی کردی، جو اس وقت عورتوں کی ایک اجتماعی تنظیم کی نگران ہے اور آخری اور سب سے چھوٹی بہن کی شادی گیارہ سال کی عمر میں اپنے چچا زاد سے کر دی جس کے پاس کوئی روزگار بھی نہیں تھا بلکہ میں نے خود اپنی طرف سے اپنی بہن سے شادی کرنے کے لیے اسے ایک لاکھ ریال دیے تاکہ وہ بغیر کسی کو بتائے مہر اور دوسرے اخراجات کو برداشت کر سکے۔ ابو عبدالعزیز کا بیان ہے کہ جب میں تھکا ہارا گھر لوٹا اور اپنی بیوی کو بتایا کہ جو کچھ بھی میرے پاس تھا سب اپنے چچا زاد کو دے دیا تاکہ وہ میری بہن سے شادی کر لے، یہ سنتے ہی وہ رونے لگی اور ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کرنے لگی کہ میرے مالک اس ایک لاکھ کو ایک ملین سے بدل دے۔ ایسی نیک بیویاں خوش نصیبوں کو ہی ملتی ہیں اور دراصل ایسا ہی ہوا میں تجارت کے شعبہ میں داخل ہوگیا اور اس قدر ترقی ہوئی کہ حکومت کی نوکری بھی چھوڑ دی۔ آج میں سیکڑوں ملین کا مالک ہوں اور اس نعمت کی شکر گزاری میں اپنی بہنوں کو پانچ پانچ ملین دیا ہے۔