کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 34
جائے تو کیا وہ اپنے بچوں کے ساتھ جا سکتا ہے؟ اس نے کہا: ہاں ، فوراً جا سکتا ہے۔ میں نے ایک تاجر آدمی کو فون کیا تو کہنے لگے، میں ذرا میٹنگ میں ہوں بعد میں آپ کو فون کرتا ہوں ۔ میں نے کہا: بھائی معاملہ ایسا ہے کہ ٹالا نہیں جا سکتا۔ کہنے لگے: ٹھیک ہے میں آپ کو فون کرتا ہوں ۔ تھوڑی دیر میں انہوں نے فون کیا، کہنے لگے: بولیے کیا بات ہے؟ میں نے کہا: چالیس ہزار ریال کے بدلے جنت خریدو گے اور ان کو آنکھوں دیکھا حال بیان کر دیا۔ کہنے لگے: ٹھیک ہے تھوڑی دیر میں آدمی پیسہ لے کر پہنچ جائے گا۔ تقریباً ایک گھنٹے کے اندر وہ رقم آ گئی اور قرض دینے والے نے بھی آکر صلح کر لی۔ تعجب اس وقت ہوا جب قرض دار قرض کی رقم لینے آیا اور بچوں کو اپنے باپ کے پاس بیٹھ کر ہنستے اور باتیں کرتے ہوئے دیکھا تو بہت متاثر ہوا۔ میں نے کہا: تم ان کے ساتھ نرمی نہیں کرو گے ان بچوں کی ماں دو مہینہ پہلے وفات پا گئی ہے۔ اتنا سنتے ہی وہ آنکھیں بند کر کے آفس سے نکل گیا، جب میں نے اس کو گھیرا تو کہنے لگا: مجھے کچھ نہیں چاہیے میں ٹھیک ہوں اور اپنے حق سے دستبردار ہوگیا اور کہنے لگا: آپ سے صرف اتنی گزارش ہے کہ میرے لیے اولاد کی دعا کر دیں ، کیونکہ میں بے اولاد ہوں اور ان بچوں کے منظر کو دیکھ کر میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور رو پڑا۔ پھر میں نے دوبارہ اس تاجر پاس فون کیا اور جو کچھ ہوا حالات کی خبر دی تو وہ کہنے لگے: میں قرض دینے والے سے بری حالت میں نہیں ہوں ، اللہ نے مجھے بہت دیا ہے، یہ پیسے اس آدمی کو دے دیجئے جس کے اوپر قرض تھا۔ یہ سن کر آدمی (قیدی) رونے لگا، بظاہر وہ دیندار لگ رہا تھا، میں نے پوچھا: قرض کی وجہ کیا ہے۔ کہنے لگا: اپنی بیوی کی وفات کے بعد میں نے کام چھوڑ دیا تاکہ اپنے بچوں کو وقت دے سکوں تو میں نے چالیس ہزار ریال کی گاڑی لے لی تاکہ اپنے بچوں پر خرچ کر سکوں اور گھر کے قریب ہی کوئی چھوٹی سی دکان کھول لوں تاکہ میرا گھریلو معاملہ درست ہو جائے، ابھی باتیں مکمل نہیں ہوئیں تھیں کہ پولیس والے نے بچوں کو پکارا کہ اپنے ابو کو لے جاؤ۔ میں نے تمام معاملہ کی ایک کاپی تاجر آدمی کے لیے لی تاکہ وہ معاملے کو سمجھ سکیں اور ان سے مل کر آدمی کے بیوی کی وفات اور قرض کا سبب بتایا تو اس تاجر نے جواب