کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 31
جی ہاں ! بچپن کی بات ہے، میں ایک کار حادثے میں اپنا دایاں ہاتھ کھو چکی ہوں ، میری چچی اور پھوپھیاں ، میری کزن اور دوست جب ہاتھ ملانے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ بڑھاتی ہیں تو مجھے کس قدر اذیت کا احساس ہوتا ہے جب کہ شکل وصورت میں میری اپنی ایک مثال ہے جس کو پانے کی ہر شوہر آرزو کرتا ہے، لیکن اپنی ایک کمی کی وجہ سے ذہنی طور سے پریشان ہو جاتی ہوں اور رات کی تنہائیوں میں جب اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتی ہوں تو شدت غم سے میرا دل آنسوؤں میں ڈوب جاتا ہے مگر کیا کروں شاید قدرت کا یہی فیصلہ ہے۔ میرے کزن نے جو یونیورسٹی میں ڈاکٹر ہیں ، اپنی بیوی کے انتقال کے بعد میرے پاس شادی کا پیغام بھیجا، میں نے محسوس کیا کہ شاید وہ ایسا مجھ پر ترس کھا کر اور اللہ سے اچھے بدلے کی امید میں کر رہے ہیں ، پھر میں نے انہیں فون کیا تو کہتے ہیں کیا تم نفسیاتی مریض ہو؟ (معاملے کا حد سے زیادہ اہتمام کیا) یہاں تک کہ انہوں نے مصنوعی ہاتھ لگانے کا بھی وعدہ کیا اور یہ کہ وہ مجھ سے بیوی جیسا معاملہ کریں گے نہ کہ معذوروں جیسا، میں آپ سب سے مشوروں کی محتاج ہوں کہ کیا میں شادی کروں ، کیا اللہ کا نام لے کر اس دنیا میں داخل ہو جاؤں یا پھر ان باتوں کو یاد کر لوں کہ میں نے معاملے کو اس حق سے زیادہ اہمیت دی۔ معاشرے میں اس طرح معذور نوجوان لڑکیوں کے حالات اور نفسیات ہمیں سمجھنے چاہئیں ۔ ہم اس قسم کے واقعات اور حادثات سنتے رہتے ہیں ، لیکن ہمیں ان کے درد کو بھی محسوس کرنا چاہیے جیسا کہ مذکورہ نوجوان لڑکی اپنے دائیں ہاتھ سے معذور ہونے کی وجہ سے پریشان رہتی تھی، اگرچہ آج اللہ نے اسے بہت ساری بھلائیوں سے نوازا اور اسے ایک نیک انسان سے شادی کرنے کی توفیق دی جو اسے اور اس کے احساسات کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ یہ پیغام ہر اس نوجوان لڑکی کا ہے جو معذور ہے یا کسی بیماری کا شکار ہے، لیکن اللہ سے اچھی امید کرتے ہوئے صبر کر رہی ہے۔ چند دنوں پہلے ایک لڑکی نے فون کیا جس کے آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے، کہتی ہے کہ میں حسین وجمیل ہونے کے ساتھ ساتھ حافظ قرآن بھی ہوں اور میرے والد کا