کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 28
سارے اختلافات اور ساری باتوں کا سبب ایک تھا اور وہ تھا مال و دولت کی لالچ۔ پریشانی کی بات یہ تھی کہ وہ سب دین سے دور تھے اور حقیقت تو یہ تھی کہ میں خود بھی ان میں سے کسی ایک سے بھی شادی کرنا نہیں چاہتی تھی۔ بلکہ میری خواہش تھی کہ میں کسی نیک اور اچھے انسان سے شادی کروں ، چاہے وہ غریب ہی کیوں نہ ہو۔
اس کا کہنا ہے کہ ایک نوجوان نے اس کے لیے شادی کا پیغام بھیجا، جو حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں () کر رہا تھا۔ جس کی مالی حالت مناسب تھی، لیکن جب میری والدہ اور بڑے چچا نے انکار کر دیا تو میرے چھوٹے چچا نے میرے معاملہ میں مداخلت کی۔ اور کافی کوششوں کے بعد میرے بڑے چچا اس شادی کے لیے راضی ہوئے، لیکن ایک شرط کے ساتھ وہ یہ کہ ہمارے چچا ہمارے والد کی طرف سے ملنے والے تمام حقوق سے دستبردار ہو جائیں ، واضح رہے کہ لڑکی اگر اکیلی ہو تو اس کو جائیداد میں آدھا حصہ ملتا ہے اور اس کی ماں کے حصہ کے بعد باقی جائیداد چچاؤں اور دوسرے رشتہ داروں کو مل جاتی ہے۔
چنانچہ میرے چھوٹے چچا بڑے چچا کی اس شرط پر بھی راضی ہوگئے، جبکہ سبحان اللہ! ان کے حصے میں آنے والی جائیداد تقریباً ۹ ملین ریال تھی اور مجھ جیسی امیر لڑکی کو ایک غریب نوجوان سے شادی کرنے کے لیے اتنی بڑی دولت کو داؤ پر لگا دیا، یہاں تک کہ میری والدہ کو بھی راضی کر لیا اور شادی بھی ہوگئی۔ یقیناً میرے چھوٹے چچا قابل تشکر ہیں جنہوں نے ہمارے لیے اتنی بڑی قربانی دی۔ ایک اہم بات کو میں واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ آج میرے چچا ٹھکرائی ہوئی دولت کی کئی گنا جائیداد کے مالک ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں چار خوبصورت بچوں سے بھی نوازا ہے۔
بس اللہ رب العزت سے دعا کرتی ہوں کہ وہ انہیں اچھا بدلہ دے اور اصل میں تو یہ اللہ کی طرف سے بہترین بدلہ ہے، ہر اس انسان کے لیے جو دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے، چاہے اس کے لیے اسے تکلیف ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ اس لڑکی کا کہنا ہے آج کل کے