کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 242
’’اللہ کی قسم! میری زبان کٹ جائے، یہ میرے لیے اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں ایسی بات کے بارے میں گفتگو کروں جس کا مجھے علم نہیں ۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کو خط لکھا: ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم طبیب کی حیثیت سے کام کر رہے ہو۔ اس بات سے ڈرنا کہ کہیں تم عطائی نہ بن جاؤ یا اپنی کم علمی کے باعث کسی مسلمان کو قتل نہ کر دو۔‘‘ اس تنبیہ کے بعد حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فیصلہ کرنے میں بہت احتیاط کرنے لگے، بلکہ کئی بار ایسا ہوا کہ دو آدمی ان کے پاس جھگڑا لے کر آئے تو ان کے درمیان فیصلہ کرنے کے بعد فرمایا: فریقین کو دوبارہ میرے پاس لے کر آؤ، میں عطائی ہوں ۔ جب وہ آ جاتے تو ان سے دوبارہ معاملہ سنتے، اس پر دوبارہ غور و فکر کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ اللہ اللہ! کتنا خوف اور ڈر تھا کہ کہیں ان سے عجلت میں غلط فیصلہ نہ ہو جائے! کیا آج کل کے علمائے کرام اس پر غور فرمائیں گے؟ (ماخوذ از سنہرے اوراق، عبدالمالک مجاہد) ٭٭٭