کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 241
ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’میں نے ایک سو بیس انصاری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا، ان میں سے کسی ایک سے سوال کیا جاتا تو دوسرے کے پاس جانے کو کہتے، دوسرا تیسرے کے پاس تیسرا چوتھے کے پاس، حتی کہ سوال ہوتے ہوتے پہلے کے پاس واپس آ جاتا۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل یہ تھا کہ جب کوئی صحابی حدیث بیان کرتے اور ان سے سوال ہوتا تو وہ پوری کوشش کرتے کہ اس کا جواب ان کا کوئی دوسرا بھائی دے۔
ابو الحسین ازدی کہا کرتے تھے:
( (اِنَّ أَحَدَہُمْ لَیُفْتِی فِی الْمَسْأَلَۃِ، لَوْ وَرَدَتْ عَلَی عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ لَجَمَعَ لَھَا أَھْلَ بَدْرٍ۔))
’’لوگ مسئلہ میں بے جھجک فتویٰ دیتے ہیں ، اگر یہی مسئلہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھا جاتا تو اس کے جواب کے لیے اہل بدر کو جمع کر لیتے۔‘‘
قاسم بن محمد سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: مجھے اس کا جواب نہیں آتا۔
سائل نے کہا: حضرت، آپ کے پاس آیا ہوں ، آپ کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا، مجھے تو جواب چاہیے۔
قاسم بن محمد نے فرمایا: بھائی! میری لمبی داڑھی کی طرف مت جاؤ! اور نہ یہ دیکھو کہ میرے ارد گرد کتنے لوگ جمع ہیں ۔ اللہ کی قسم! ’’مَا أُحْسِنُہٗ‘‘ میں اچھے طریقے سے جواب نہیں دے سکتا۔
قریش کے ایک آدمی نے اس سائل سے کہا تھا: اے میرے بھتیجے! قاسم کی صحبت اختیار کرو، آج کے دن ان سے زیادہ علم و فضل والا کوئی شخص نہیں ۔
قاسم فرمانے لگے:
( (وَاللّٰہِ! لَأَنْ یُقْطَعَ لِسَانِی أَحَبُّ اِلَیَّ مِں أَنْ أَتَکَلَّمَ بِمَا لَا عِلْمَ لِی بِہِ۔))