کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 24
نہ کرنے کی دھمکی بھی دی اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کسی طرح کے حقوق کا مطالبہ کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔
ایک مرتبہ کی بات ہے، ایک عورت نے مجھے فون پر بتایا کہ شادی کا ارادہ کرنے پر اس کے شوہر کے گھر والوں نے اسے گھر سے نکال دیا، مجبور ہو کر اس نے بچوں کے ساتھ گھر کی چھت پر رات گزاری، یہاں تک اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک اچھے انسان کے ذریعہ احسان کیا، جس نے اس سے شادی کر لی اور اس کے معصوم بچوں کی تربیت کی۔
اگر ہمارے معاشرہ میں بیوائیں شادی کرنا چاہیں تو انہیں اس قدر پریشان کیا جاتا ہے، کیوں ؟ کیا ان کا حق نہیں ہے کہ وہ شادی کریں اور ان کے بچے ان کے ساتھ رہیں ، لیکن یہ دنیا عجیب ہے ،یہ بھول جاتی ہے کہ ظالم کے لیے ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہوگا۔ تو ظالموں کو اپنے بھائیوں کی بیویوں اور ان کے بیٹے اور بیٹیوں پر ظلم سے ڈرنا چاہیے اور انہیں ان کے حقوق واپس کر دینے چاہئیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بیوہ اللہ کی طرف ایک مظلوم کی حیثیت سے ہاتھ اٹھا دے، پھر تو کوئی بہا نہ نہیں چلے گا اور اللہ کی پکڑ بہت مضبوط ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الْاَبْصَارُ،مُہْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُؤُوْْسِہِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْہِمْ طَرْفُہُمْ وَ اَفْئِدَتُہُمْ ہَوَآئٌ﴾ (ابراہیم: ۴۲۔۴۳)
’’اور تو اللہ کو ہرگز اس سے غافل گمان نہ کر جو ظالم لوگ کر رہے ہیں ، وہ تو انھیں صرف اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔اس حال میں کہ تیز دوڑنے والے، اپنے سروں کو اوپر اٹھانے والے ہوں گے، ان کی نگاہ ان کی طرف نہیں لوٹے گی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔‘‘
٭٭٭