کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 23
نہیں کریں گے۔ میرے حالات سن کر وہ بہت روئے، بچیوں کو ایک ایک کر کے پکارا، چوما، سینے سے لگایا، پھر ہمیں پندرہ ہزار ریال دیے اور ہمت وحوصلہ دیا اور اطمینان دلاتے ہوئے کہا کہ گھر لوٹ جائیں ، پھر ایک ہفتہ کے بعد ہمارے لیے ایک گھر ان چار معصوم بچوں کے نام خریدا اور ان کے نام چند جنرل اسٹور لکھ دیے اور دو لاکھ ریال کے چار فلیٹس کرایہ پر ہمیں دلا دیا۔ تقریباً دس دن بعد دادا نے جو کچھ ہماری مدد کی تو اس کا علم میرے دیوروں کو ہوگیا اور وہ سب غصہ ہوگئے اور دادا یعنی میرے سسر سے شکوہ کرنے لگے۔ سسر جی دوبارہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میرے بچے مجھ سے شکوہ کر رہے ہیں ، اس لیے میں تمہارے متعلق فکر مند ہوں اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم فلاں سے شادی کر لو، وہ اچھا ہے، نیک ہے، دیندار ہے، تمہاری حفاظت کرے گا۔ میں نے کہا کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ کہنے لگے کہ میری بچی شادی سے تم محفوظ ہو جاؤ گی اور شاید اس سے کوئی بیٹا ہو جو اپنی بہنوں کے لیے سایہ دار درخت ثابت ہو، میری بچی میری زندگی شاید بہت مختصر ہے، میں تم پر اور اپنی پوتیوں پر مطمئن ہو جانا چاہتا ہوں ، پھر میں نے شادی کر لی اور زندگی کے باقی دن بہت خوبصورتی سے گزارے۔ آخر میں کہتی ہے کہ میں آپ سب سے امید کرتی ہوں کہ ہم یتیموں کی ماؤں کو نہ بھولیں ، دوسری عورتوں کی طرح ہم بھی شادی کی ضرورت مند ہیں اور میں اپنے گھر والوں اور اپنے بچوں کے چچاؤں سے امید کرتی ہوں کہ وہ سمجھنے کی کوشش کریں اور بچوں کی تربیت کی دلیل دے کر شادی سے محروم نہ کریں ، میں آپ سب سے گزارش کرتی ہوں کہ ہم بیواؤں اور یتیم بچوں کی ماؤں کا خیال رکھیں ۔
اس واقعہ کے سننے کے بعد میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ ہمارے معاشرہ میں بیوہ شادی سے کیوں محروم رہتی ہے اور اگر شادی کر لیتی ہے تو بچوں سے محروم ہو جاتی ہے، یا بعض حالات میں اپنے یا بچوں کی وراثت سے محروم ہو جاتی ہے، بعض دفعہ تو مجبور بھی کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق سے دستبردار ہو جائیں ۔ جیسا کہ آپ نے مذکورہ واقعہ میں پڑھا کہ کس طرح اس عورت کے شوہر کے بھائی (دیور) اس سے دور ہوگئے بلکہ اسے دوسروں سے شادی