کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 22
بیوہ ہمارے معاشرے میں بیواؤں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ جنہیں زندگی کے ڈھیر سارے مسائل کا سامنا ہے، لیکن معاشرہ ان لوگوں سے غافل ہے۔ کتنی بیوہ عورتیں ہیں جو اپنے بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال کے لیے معمولی سی اجرت پر سخت محنت کے کام کرتی ہیں ، اور وہ بھی ایسے کام کہ جن کی سکت مرد حضرات بھی نہیں رکھتے۔ ایسا ہی ایک واقعہ نورہ نامی عورت کا ہے۔ کہتی ہے کہ معاشرے میں ہم مظلوم ہیں ۔ ہم اپنی عزت و آبرو سنبھال کر اپنے گھروں میں بیٹھی ہیں ۔ زندگی کے مسائل اور پریشانیوں سے ہمارا دل چور اور ہمارے احساسات مجروح ہیں ۔ میں چند یتیم بچوں کی ماں ہوں ۔ جمعہ کے خطبوں اور قرآن پاک کے پروگراموں کو پابندی سے سنتی ہوں ، لیکن کبھی نہیں سنا کہ کسی نے یتیموں کی ماؤں کے متعلق گفتگو کی ہو۔ وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ جب میری عمر (۴۹) سال کی تھی تو میرے شوہر کار حادثے کا شکار ہوگئے اور چار معصوم بیٹیوں کو چھوڑ کر وفات پا گئے۔ پھر میں نے بچوں کے چچاؤں کی بہت منتیں سماجتیں کیں کہ وہ ان معصوموں کا خیال رکھیں ، لیکن ساری کوششیں بے کار گئیں بلکہ ان میں سے ایک نے کہا کہ یا مجھ سے شادی کر لے یا بچوں کو چھوڑ دے، ہم دیکھ لیں گے جبکہ میں اپنے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کے حق میں نہیں تھی۔ پھر میں بہت پریشان ہوئی، زمین ہمارے لیے تنگ ہوگئی، کس طرح سے ہم نے عدت کے چار مہینے دس دن گزارے، ہمارے پاس ایک روپیہ بھی نہیں تھا، خاص طور سے میرے گھر کی مالی حالت بھی اچھی نہیں تھی، پھر ایک دن میں رات کے دس بجے اپنی بچیوں کو لے کر ان کے دادا کے گھر پہنچ گئی۔ جن کی عمر ۸۰ سال تھی اور وہ نابینا بھی تھے، میں نے ان کو سارے احوال سنائے اور کہا کہ کیا آپ ان معصوم بچیوں پر رحم