کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 190
ذہانت یہ اس وقت کی بات ہے جب جہالت کے ساتھ ساتھ دشمنیاں عام تھیں ۔ شعر و شاعری تو عربوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ ایک شاعر سفر کے دورانا اپنے دشمن کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس نے جان چھڑانے کی پوری کوشش کی۔ مگر وہ مکمل طور پر دشمن کے قابو میں تھا۔ اب اسے یقین تھا کہ دشمن اسے معاف کرنے والا نہیں ۔ اس نے اپنے دشمن سے کہا: مجھے معلوم ہے تم مجھے قتل کر دو گے، لیکن دشمنی کے باوجود میرا ایک حق تم پر ہے۔ میں تم سے وعدہ لینا چاہتا ہوں ۔ دشمن نے کہا: بتاؤ! ہم اپنے وعدہ کو پورا کریں گے۔ اس نے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ میرے پاس صرف دو بیٹیاں ہی ہیں ۔ میرے قتل کے بعد ان کے پاس جانا اور ان کو میرا یہ پیغام دے دینا: ( (أَلَا أَیَّتُہَا الْبِنْتَانِ إِنَّ أَبَاکُمَا ....)) جانی دشمن نے کہا: ٹھیک ہے تمہاری یہ مراد پوری کر دوں گا۔ پھر اس نے شاعر کو قتل کر دیا۔ قتل کے بعد وہ مقتول کے گھر آیا اور دروازے کے پاس کھڑے ہو کر اس نے اس کی بیٹیوں کو آواز دی اور کہا کہ تمہارا باپ مجھے ملا تھا۔ اس نے مجھے پیغام دیا تھا۔ بیٹیاں کہنے لگیں : کیا؟ اس نے ان کے باپ کا جملہ دہرا دیا۔ ’’آگاہ ہو جاؤ، اے دونوں لڑکیو! بے شک تمہارا باپ ....‘‘ مقتول کی لڑکیاں شعر و شاعری سے مکمل دلچسپی رکھتی تھیں ۔ جب انہوں نے اپنے والد کا پیغام سنا تو ایک دوسرے کی طرف گہری نظر سے دیکھا۔ گویا کوئی فیصلہ کر رہی ہوں ، اور پھر اس قاتل کو کہا: ذرا ٹھہریں ۔ اتنے میں اپنے قبیلے کے نوجوان کو بلوا لائیں اور کہا کہ یہ ہمارے والد کا قاتل ہے اس کو قابو کر لیں ۔ قاتل نے بڑا واویلا کیا کہ تمہارے پاس ثبوت کیا ہے؟