کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 19
نیک خواہشات اور نیک دعاؤں کے کبھی انہوں نے مجھ سے یا میرے بھائی بہنوں سے بلند آواز میں بات نہیں کی۔
پھر ایک دن کی بات ہے کہ میرے والد مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے تو میرے بھائی کو میری سوتیلی والدہ کے ساتھ بدسلوکی سوجھی، چنانچہ اس نے انہیں ایک کمرے میں پورا دن بند کر دیا، یہاں تک کہ پانی بھی نہیں دیا اور جب پورا دن گزرنے کے بعد ان کو آزاد کیا تو ان کی حالت قابل رحم تھی۔ غور و فکر کا مقام ہے! جانتے ہیں وہ نکلتے ہی کیا پوچھتی ہے؟ چھوٹے بچے سب کہاں ہیں ، یاسر اور فلاں فلاں سب کہاں ہیں اور سب کو پا کر سینے سے چمٹا لیا اور ان سب کو تسلیاں دیں ، وہ سب بھی ایسے خوش ہوگئے جیسے انہوں نے اپنی اصلی ماں کو پا لیا ہے، اگرچہ وہ ان کی حقیقی ماں نہیں تھیں ۔
پھر جب ابو مکہ سے واپس آئے تو انہوں نے ابو کو کچھ بھی نہیں بتایا جیسے کہ گھر میں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ یہ کتنی عظیم صفت ہے، ایسی عورتوں کو اللہ تعالیٰ اس صبر و تحمل پر بہترین اجر عطا کرے۔
پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میرا بڑا بھائی مارے غضب کے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا اور جب میری سوتیلی والدہ نے دروازہ کھولا تو اس نے اتنے زور سے دروازے کو دھکا دیا کہ ان کا پیر دروازے میں پھنس گیا اور پیر کی دونوں انگلیاں کٹ گئیں جس کی وجہ سے میرا بھائی بہت گھبرا گیا اور کہنے لگا: آپ کو اسپتال لے جاتا ہوں ، چنانچہ وہ راضی ہوگئیں ۔ مجھے آج بھی وہ کربناک منظر یاد ہے جب وہ اپنے پیروں کی انگلیوں کے کٹے ہوئے ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے اسپتال لے جانے کے لیے رومال میں رکھ رہی تھیں ، پھر میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں کہ اگر تمہارے ابو فون کریں تو کہنا کہ پیر میں معمولی سے زخم کی وجہ سے اسپتال گئیں ہیں ۔
آپ سوچیے کہ ایثار اور قربانی کا یہ عالم ہے۔ اور ان دنوں گھر میں کس قدر خاموشی تھی اور ہر شے کس قدر اداس تھی جب وہ اسپتال میں داخل تھیں اور ان کی واپسی کے ساتھ ساتھ گھر کی خوشیاں بھی لوٹ آئیں ۔ پھر کیا تھا کہ جو میرا بھائی سب سے زیادہ سخت نفرت کرنے والا تھا وہی سب سے زیادہ محبت کرنے والا اور فرمانبردار بیٹا بن گیا۔